ایران امریکا کشیدگی کے تناظر میں مختلف تجزیے کیے جارہے ہیں ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو جیسا بتایا جارہا ہے کہ امریکا ایران کو کوئی سبق سکھانا چاہتا ہے۔ بعض امریکی تجزیہ کار یہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ امریکی حکومت یہ سب اسرائیل کے ایما پر کررہی ہے اس کے لیے اس کے پاس ٹھوس دلیل بھی ہے۔ لیکن سارے تنازع اور کشیدگی کا نتیجہ امریکا نے سمیٹ لیا ہے۔ خطے کے ممالک سعودی عرب، امارات اور اردن کو ایران سے خوفزدہ کرکے امریکا نے ان ممالک کو 8 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے لیے ابھی کانگریس سے منظوری نہیں لی گئی۔ مائک پومپیو کی جانب سے جواز دیا گیا ہے کہ ایران کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ کسی ملک کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے 8 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا جائے۔ اس تنازع اور کشیدگی کا ایک پہلو تو یہ ہے جو بہت واضح ہے اور اس کے لیے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ لیکن امریکی صحافی رِک وائلز کے قائم کردہ ٹرو نیوز چینل نے چشم کشا انکشافات کیے ہیں۔ رِک وائلز نے انکشاف کیا ہے کہ ایران کے خلاف حالیہ امریکی پیش رفت کی پشت پر اسرائیل ہے اور اس دعوے کی حمایت میں اس نے اسرائیلی اخبار ہارٹز کی خبر کا حوالہ دیا ہے جس میں بہت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے خلاف اُکسایا ہے اور اسرائیل کو سامنے نہ لانے کی شرط عاید کی ہے۔ اس پر رِک وائلز نے تبصرہ کیا ہے کہ یہ اسرائیلی اخبار ہارٹز کی سرخی ہے۔ یعنی اگر ایران سے جنگ چھڑ بھی گئی تو کوئی اسرائیلی یہودی فوجی اس جنگ میں نہیں مرے گا۔ بلکہ امریکی مریں گے۔ رِک نے کہا ہے کہ اسرائیل اپنے کسی سپاہی کے خون کا ایک قطرہ بھی گرائے بغیر ایک ملک سے جنگ کرنا چاہتا ہے۔ ٹرو نیوز نے ہارٹز کی 20 مئی کی اشاعت کی سرخی کی بنیاد پر یہ سب کہا ہے۔ رِک وائلز نے اسی ٹاک شو میں امریکی میڈیا پر یہودی کنٹرول کا بھی برملا اظہار کیا اور کہا ہے کہ امریکا کے میڈیا کو صہیونی کنٹرول کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی نیا انکشاف نہیں لیکن امریکی تجزیہ نگار یہ بات کہے تو اہمیت کی حامل ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ امریکی موت سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں اسی لیے رِک وائلز اپنے پروگرام میں سارا زور اس بات پر دیتا رہا کہ ایران امریکا جنگ ہوگئی تو امریکی مریں گے۔ کسی اور کی جنگ میں امریکیوں کے مرنے سے پہلے اتنا واویلا کیوں… امریکیوں کو اپنے فوجیوں اور جوانوں کی قدر ویتنام میں تو نہیں ہوئی تھی، 58 ہزار فوجی مروا کر بھی فاتح قرار پائے تھے لیکن عراق اور افغانستان کی مجموعی ہلاکتیں اس سے کم ہیں۔ شاید ایران سے جنگ میں بھی انہیں یہی خدشہ ہو کہ یہاں بھی امریکی مریں گے۔ جو لوگ خود کو مارتے رہتے ہیں وہ امریکیوں کو کتنا ماریں گے۔ اور پروپیگنڈے میں بھی ایرانی پیچھے نہیں، دس مار کر
100 کی خبر پھیلائیں گے۔ اس کام میں بھی وہ بڑے طاق ہیں، اس کی طویل تاریخ ہے۔ رِک وائلز نے 9/11 کے واقعے پر بھی شبہات کا اظہار کیا اور واشنگٹن ٹائمز کا حوالہ دیا کہ جس نے 9/11 سے ایک دن قبل امریکی ایڈوانس ملٹری اسکول کے حوالے سے ایک خبر شائع کی تھی کہ اسرائیلی موساد امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح حملہ کرے گی کہ حملہ آور عرب یا فلسطینی سمجھا جائے۔ یہ خبر اس لیے جاری کی گئی تھی کہ صدر بش 20 ہزار امریکی فوجی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کے لیے متعین کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ لیکن اگلے روز 9/11 کا واقعہ ہوگیا۔ اس روز سب کچھ جل گیا، پگھل گیا، لیکن عربوں کے ’’فائر پروف پاسپورٹ‘‘ بچ گئے اور ان پاسپورٹس کی بنیاد پر ہم عراق اور افغانستان میں جنگ کرنے پہنچ گئے۔ 18 سال بعد بھی ہم حالت جنگ میں ہیں لیکن امریکا کی ساری جنگیں اسرائیل کے لیے ہیں۔ یہ تجزیہ بھی امریکی ایڈوانس ملٹری اسکول کا تھا۔ رِک نے بہت واضح طور پر کہا کہ
امریکی اسکول کے تجزیے کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ 9/11 عربوں کی نہیں موساد کی کارروائی تھی۔ اس نے وہی کام کیا کہ ٹوئن ٹاورز کو نشانہ بنایا اور الزام عربوں پر ڈال دیا، اس دن سے امریکی خزانے جنگ میں جھونکے جارہے ہیں۔ اب اسرائیل کے اشارے پر امریکا کو ایران کے خلاف جنگ میں جھونکا جارہا ہے اور اسرائیلی صہیونی اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے امریکیوں کی حماقتوں پر ان کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ رِک وائلز نے کہا کہ امریکی صحافت اس قدر معذور ہے کہ آج تک امریکیوں کو حقائق تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔ بلکہ خبر کا رنگ کوئی اور منتخب کرتا ہے۔ رِک نے امریکیوں کو چیلنج کیا کہ اُٹھو اور اب جنگ کے خلاف نکل کھڑے ہو۔ رِک وائلز جو بھی کہہ رہا ہے امریکیوں سے کہہ رہا ہے لیکن پاکستانی حکام بھی اس پر کان دھریں اگر امریکیوں کو 19 برس بعد دوسروں کی جنگ کے نقصانات کا اندازہ ہوگیا ہے اور وہ اب اپنے بچوں کو نہیں مروانا چاہتے تو ہمارے حکمران اور طاقت کے مراکز اپنے جوانوں اور قوم کے بچوں کو بھی مروانے کا سلسلہ بند کریں۔ کب جاگیں گے؟