سردار علی کب تابش الوریٰ کے قالب میں ڈھلے! اس مسافت میں اتنی دھول اُڑی ہے کہ سب کچھ گرد آلود ہوچکا ہے مگر ان کی پیشانی پر دمکتے چمکتے مہرتاباں کی روشنی میں یہ منظر بہت روشن ہے کہ بہاولپور ایک مہرباں اور شفیق شہر ہے اس کی شفقت اور نوازش ہر نووارد کے لیے ماں کی گود کی طرح کشادہ ہے، اتنی کشادہ اور وسیع ہے کہ اپنے منہ بولے بچوں کو بھی اپنی پناہ میں لینے سے کبھی بخل سے کام نہیں لیتی۔ تابش الوریٰ بھی اس کی گود میں پروان چڑھے اور پھر عزت و شہرت کی ہر منزل ان کے قدم چومنے لگی۔ ٹو اِن ون تو بہت سے دیکھے ہیں مگر تابش الوریٰ فور اِن ون ہیں۔ معروف صحافی ہیں، ممتاز شاعر ہیں، نامور ادیب ہیں، مشہور سیاست دان ہیں، وطن عزیز میں سیاست دان کا نیک نام ہونا ایک ایسا اعزاز ہے جو شاذ و نادر ہی مقسوم ٹھیرتا ہے۔ اچھے غزل گو شاعر ہیں مگر قطعات اور رباعیات لکھتے وقت ان کی فکری بلندی پاک چین دوستی کی طرح کوہ ہمالیہ کی چوٹی چھونے لگتی ہے۔ رئیس امروہوی کے وصال کے بعد روزنامہ جنگ میں قطعات لکھنے لگے مگر مرحوم کی پیش گوئی آڑے آگئی۔ کہا جاتا ہے رئیس امروہوی نے عالم کون و فساد سے رخصت ہونے سے قبل کہا تھا کہ انور شعور ہی میرا جان نشین ہوگا سو، انور شعور کے سوا کوئی بھی شاعر اپنا رنگ نہ جما سکا۔
سید تابش الوریٰ کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے، ان کے حسب نسب پر غور کیا جائے تو ان کا ادبی اور سیاسی شجرہ نسب مولانا ظفر علی خان، محمد علی جوہر اور حسرت موہانی کے قبیلے سے جاملتا ہے۔ ان کا نعتیہ کلام ’’سرکار دو عالم‘‘ ادبی تاریخ کا بے مثال تخلیقی شاہکار ہے، یہ مجموعہ کلام 2004ء میں شائع ہوا تھا، اس کی مقبولیت اور اثر پزیری سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے تمغا امتیاز، حکومت پنجاب نے سیرت ایوارڈ اور ادبی تنظیموں نے ادبی اعزازات عطا کیے۔ ’’سرکار دو عالم‘‘ کی مقبولیت سے متاثر ہو کر 2018ء میں نیشنل بک فائونڈیشن
اسلام آباد سے دوسری بار شائع کیا۔ حیرت ہے ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ایک مضافاتی شاعر کو اس انعام سے کیسے نواز دیا!۔ شاید تابش الوریٰ کا سیاست دان ہونا کام آگیا ورنہ… ادب کے یہ سرغندہ چھوٹے شہروں کے ادیبوں اور شاعروں کو ’’دیہاتی‘‘ کہہ کر تمسخر اُڑاتے ہیں، حالاں کہ اُن کا کلام پڑھ کر ان کے ہاتھوں کے توتے اُڑ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو توتیاں بھی اُڑ جاتی ہیں۔ 1983ء میں راغب مراد آبادی نے نعتیہ کلام ’’مدِح رسول‘‘ لکھ کر شاعروں کو غیر منقوطہ صنف کی جانب راغب کیا تھا۔ غیر منقوطہ شاعری ایک انتہائی مشکل کام ہے مگر بہاولپور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کے شاعروں نے اس پر طبع آزمائی کرکے قادر الکلام ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ ستر کی دہائی میں ڈاکٹر نصرت جعفری نے غیر منقوطہ نعتیں تحریر کیں۔ اَسّی کی دہائی میں محمد حسین آزاد نے پنجابی زبان میں غزلیں بھی لکھیں۔ ان دنوں مخفی صاحب سرائیکی میں غیر منقوطہ نعتیں تحریر کررہے
ہیں۔ خورشید ناظر نے غیر منقوطہ نعتیہ اور حمدیہ کلام پر بہت کام کیا ہے۔ ان کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ قبل ازیں خورشید ناظر جدید غزل گو شاعر کے طور پر خاصے معروف تھے مگر اب ان کی پہچان غیر منقوطہ کلام بنتا جارہا ہے۔
تابش الوریٰ کا کمال یہ ہے کہ ان کے غیر منقوطہ کلام میں آواز کا گمان نہیں ہوتا ہر شعر آمد کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ ہم دم علیگ مرحوم صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب تھے، آخری عمر میں نثر چھوڑ کر شاعری کرنے لگے تھے مگر ماہر القادری نے یہ کہہ کر ان کی شاعری کو مسترد کردیا تھا کہ ہر منظوم کلام شاعری نہیں ہوتا۔ شاعری غنائیت کی متقاضی ہوتی ہے۔ تعقید لفظی اور تعقید معنوی پر مبنی شاعری منظوم کلام تو ہوسکتی ہے شاعری نہیں۔ ’’سرکار دو عالم‘‘کا کمال یہی ہے کہ اس میں سلاست ہے، روانی ہے غنائیت ہے جو تابش الوریٰ کے قادر الکلام ہونے کی دلیل ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی غزلیں اتنی متاثر کن ہیں جتنی غیر منقوطہ نعتیں ہیں۔ قطعات اور رباعیات سے مزین ایک اور شعری مجموعہ زیر طبع ہے توقع ہے ماہ صیام کے بعد عید کی خوشیوں کو دوبالا کردے گا۔