کیا آئی ایم ایف کی نظر ایٹمی پروگرام پر ہے؟

311

امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف جس طرح دھڑا دھڑ اپنی شرطیں منوا رہا ہے اس سے خدشہ ہے کہ وہ کہیں وزارت عظمیٰ بھی نہ مانگ لے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ امیر جماعت کا یہ خدشہ عملاً حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ وزارت عظمیٰ پر آئی ایم ایف نے پہلے قبضہ کیا تھا اور دوسری شرائط اس نے بعد میں منوائی ہیں اور عمران خان اب وزیراعظم نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے کنٹری منیجر کی حیثیت سے اس کی ہدایات پر عمل کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف وہ عالمی ساہوکار ادارہ ہے جو مجبور ملکوں کو قرض دینے کے عوض ان کی سیاسی آزادی بھی سلب کرتا ہے اور ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر انہیں استعماری طاقتوں کی غلامی پر مجبور کردیتا ہے۔ اس وقت استعماری طاقتوں کی قیادت امریکا کے پاس ہے اور آئی ایم ایف اس کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہا ہے وہ متعدد مسلمان ملکوں کو قرضے کے جال میں جکڑ کر ان کی معیشت تباہ اور انہیں امریکا کا باجگزار بنا چکا ہے۔ پاکستان اس کا سب سے اہم ہدف ہے، امریکا ان تمام مسلمان ملکوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرچکا ہے جو ایٹمی پروگرام پر عمل کررہے تھے اور کسی نہ کسی مرحلے میں کامیابی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ پاکستان کو اس اعتبار سے استثنا حاصل ہے کہ امریکا کی شدید مخالفت اور پابندیوں کے باوجود قدرت اس پر مہربان رہی اور اس کے لیے حالات ایسے پیدا کردیے گئے کہ امریکا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اسے ترقی دینے میں کامیاب رہا۔ پھر جب بھارت نے کھلم کھلا ایٹمی دھماکے کرکے اپنی ایٹمی طاقت ظاہر کردی تو امریکا پاکستان کو ہر طرح کی لالچ دینے اور ڈرانے دھمکانے کے باوجود اسے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے سے نہ روک سکا۔ دُنیا کے ایٹمی ماہرین نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے بھارت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور اور تباہ کن تھے اس طرح پاکستان، امریکا، بھارت، اسرائیل اور مغربی ملکوں خواہش کے علی الرغم ایک مسلمہ ایٹمی طاقت بن گیا۔ پاکستان کو ایٹمی ملکوں کے کلب میں تو شامل نہیں کیا گیا ہے لیکن اس کے ایٹمی طاقت ہونے سے کسی کو انکار نہیں ہے اور یہی چیز امریکا کو مضطرب کیے ہوئے ہے اس کے منتخب اداروں کانگریس اور ایوان نمائندگان میں آئے دن پاکستان کا ایٹمی پروگرام زیر بحث آتا رہتا ہے اور اس رائے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت عالمی امن اور امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور پاکستان کی ایٹمی طاقت کو سلب کرکے امن و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو باقاعدگی سے مانیٹر کررہا ہے اور اس کی پیش رفت (Advancaman) پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کرتا رہتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر امریکا کا ردعمل بہت شدید تھا اور اس کا مطالبہ تھا کہ پاکستان فوری طور پر یہ سلسلہ بند کرے کیوں کہ انہیں بہت آسانی سے عام جنگوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ امریکا نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف درپردہ ایک میڈیا وار بھی شروع کررکھی ہے جس میں کبھی شدت بھی آجاتی ہے۔ مثلاً کچھ عرصہ پہلے امریکا مسلسل اس بات کا پروپیگنڈا کررہا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اس لیے انہیں اقوام متحدہ کے ماہرین کی نگرانی میں دیا جائے۔ پاکستان نے اس پروپیگنڈے کی سختی سے تردید کی اور ایٹمی ہتھیاروں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر عالمی ماہرین کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا اور بتایا کہ یہ سسٹم اتنا مکمل اور بے نقص ہے کہ اس میں کہیں سے بھی نقب نہیں لگائی جاسکتی۔ اس طرح امریکا کو اپنے پروپیگنڈے میں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر قابو پانے کی امریکی کوشش بُری طرح ناکام ہوگئی۔
ہم نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا پس منظر اس لیے بیان کیا ہے کہ اس پروگرام کی حفاظت خود قدرت کررہی ہے ورنہ دشمن اسے کب کا ٹھکانے لگا چکے ہوتے۔ انہوں نے اس پروگرام کے خلاف اپنے تمام آپشنز آزما کے دیکھ لیے ہیں لیکن وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے، اب آخری آپشن یہ رہ گیا ہے کہ پاکستان کو اقتصادی طور پر تباہ کرکے اسے تمام قرضے معاف کرنے کے عوض اپنی ایٹمی صلاحیت سرنڈر کرنے اور اپنے تمام ایٹمی اثاثے امریکا کے سپرد کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ کوشش اگرچہ پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن پاکستان اقتصادی اعتبار سے کبھی ’’پوائنٹ آف نورسیڑن‘‘ پر نہیں پہنچا۔ اب کی دفعہ حملہ بہت شدید ہے۔ وزیراعظم عمران خان آئی ایم ایف کے پاس جانا خودکشی سے بھی زیادہ بُرا فعل سمجھتے تھے، وہ پوری دُنیا میں کشکول لیے پھرتے رہے کہ آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے لیکن پاکستان میں موجود آئی ایم ایف مافیا نے انہیں اس عالمی ساہوکار کے آگے سر جھکانے پر مجبور کردیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کی مشکیں کس دی گئیں، ان کے اختیارات سلب کرلیے گئے اور اقتصادی شعبے میں تمام اختیارات آئی ایم ایف نے سنبھال لیے۔ اس وقت وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر سب پر آئی ایم ایف کے نمائندوں کا قبضہ ہے اور وہ اپنی مرضی کی اقتصادی پالیسی چلارہے ہیں۔ افغانستان ایک جنگ زدہ اور نہایت مفلوک الحال ملک ہے لیکن اندازہ کیجیے کہ اس کے سکے کے مقابلے میں پاکستانی سکے کی قیمت آدھی رہ گئی ہے اور گراوٹ کا یہ عمل بدستور جاری ہے۔ کیا پاکستان میں جنگ لگی ہورہی ہے کیا اس میں صنعتی عمل جام ہوگیا ہے، کیا مزدوروں نے ہڑتال کر رکھی ہے، کیا سرکاری دفاتر بند پڑے ہیں، کیا ٹرینیں اور پروازیں رُک گئی ہیں؟؟ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور کاروبار زندگی معمول کے مطابق چل رہا ہے تو پاکستانی روپیہ کیوں گر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ جو عالمی ساہوکار پاکستان کو قرض دے رہا ہے اس کی بنیادی شرط یہی ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی جائے، اس مقصد کے لیے اس نے اپنا آدمی اسٹیٹ بینک پر مسلط کردیا ہے جو روپے کی قدر کو گرانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس طرح آئی ایم ایف پاکستان کو دے گا تو صرف 6 ارب ڈالر لیکن پاکستانی کرنسی کو ڈی ویلیو کرکے اس سے کئی گنا وصول کرلے گا۔
باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ اب کی دفعہ وصولی سے زیادہ وصول کرانے کی اسٹرٹیجی پر کام ہورہا ہے، پاکستان عملاً ڈیفالٹ کرچکا ہے وہ قرضہ اتارنے کے لیے قرضے پر قرضہ لے رہا ہے، اب ایک ایسا مرحلہ آگیا ہے جب اسے مزید قرضہ دینے سے انکار کیا جاسکتا ہے اور اسے یہ پیش کش کی جاسکتی ہے کہ ہم تمہارا سارا قرضہ اتارنے اور معاف کرنے کو تیار ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ تم اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرکے سارے ایٹمی اثاثے ہمارے حوالے کردو اور ترقی و خوشحالی کے ساتھ ایک ’’نیا پاکستان‘‘ عوام کو تحفے میں دو۔ عمران خان ایک نئے پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس پیش کش کو قبول کرتے ہیں یا نہیں، پاکستان ایٹمی پروگرام کے بغیر اپنے حریفوں کے لیے نرم چارہ بن جائے گا اور خدانخواستہ اپنا حقیقی وجود کھو بیٹھے گا۔