بیانات اور دعوؤں سے ورلڈ کپ نہیں جیتا جا سکتا

120

تجزیہ: (مظفر اعجاز) پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں جو پر فارمنس دکھائی ہے اس سے اسی کی توقع تھی ۔ اگر بیانات اور دعوئوں سے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا جا سکتا ہے تو اب تک پاکستان کے حکمران اپنے بیانات اور دعوئوں سے کشمیر بھی آزاد کرا چکے ہوتے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ نے ذمے داروں خصوصاً کوچ اور چیف سلیکٹرز نے اپنے غلط فیصلوں سے قومی ٹیم کو نقصان پہنچایا ہے ۔ مکی آرتھر کہہ رے تھے کہ پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف تین مرتبہ 300 سے زیادہ رنز بنائے لہٰذا وہ بڑا اسکور کرنے کے قابل ہو گئے ہیں ۔ ان میچوں کا نتیجہ پاکستان کے خلاف نکلا ۔ یعنی انگلینڈ نے اس سے بھی زیادہ رنز بنائے ۔ انہیں توجہ دلائی گئی کہ یہ وکٹیں انگلینڈ نے اپنے لیے بنائی تھیں ورلڈ کپ کی وکٹیں دوسری ہوں گی چنانچہ وکٹیں بدلتے ہی پاکستانی ٹیم اپنی اصل حالت میں آ گئی ۔50 اوورز پورے نہ کھیل سکنا میچ ہارنے سے زیادہ شرمناک ہے ۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے بھی یہی کہا تھا کہ بیٹنگ وکٹیں ملیں گی ۔ انضمام صاحب کہاں گئیں بیٹنگ وکٹیں ؟۔ پھر بھی پاکستانی بولرز نے تین کھلاڑی آئوٹ کر دیے جو غنیمت ہے ۔ کہتے ہیں کہ بہترین کی امید رکھو ارو بد ترین کے لیے تیار رہو ۔ لیکن پاکستانی کرکٹ حکام نے بد ترین کے لیے تیاری کی اور اسی کی امید تھی ۔ پہلی مرتبہ پاکستانی ٹیم قوم کی توقعات پر پوری اتری ۔ قوم کو اسی پرفارمنس کی امید تھی ۔ عمر اکمل کا رویہ اور ڈریسنگ روم میں اس کی کیفیت کچھ بھی ہو گرائونڈ میں ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں عمر اکمل کی ضرورت محسوس کی گئی۔