سلگتے مسائل کے غیر فطری حل

182

فلسطین کی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر محمود باز کا ایک اہم بیان دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا کہ حماس نے اوسلو سمجھوتے کو مسترد کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ تاریخی ثابت ہوا ہے۔ حماس نے سمجھوتے کے پہلے روز ہی کہا تھا کہ یہ محض فلسطینیوں کو اندھیرے میں رکھنے اور ان کی تحریک آزادی کو دبانے کا ایک غیر ملکی حربہ ہے اس سے فلسطینیوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فلسطینی مزاحمتی لیڈر کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اوسلو معاہدے کو چھبیس برس گزر گئے ہیں اور ارضِ فلسطین پر بدستور دکھوں، مسائل، مصائب، لاشوں، آہوں اور سسکیوں کی فصل اُگ رہی ہے۔ چھبیس سال پہلے جب تنظیم آزادی فلسطین کے قائد یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کے درمیان اوسلو معاہدہ ہورہا تھا تو اسے فلسطینیوں کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز کہا گیا تھا۔ بتایا جا رہا تھا کہ اب درماندہ حال فلسطینیوں کے دکھوں پر مرہم رکھے جائیں گے اور ان کا شمار دنیا کی آزاد اور باوقار قوموں میں ہوگا۔ تنظیم آزادی فلسطین کے قائد یاسر عرفات پیرانہ سالی کا شکار ہو رہے تھے۔ فلسطین کی مزاحمت پر ان کا عملی کنٹرول ختم ہو رہا تھا اور اس کی جگہ پتھر اور فدائی کلچر کے خوگر کئی نئے گروپ منظر پر اُبھر رہے تھے۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے دنیا کے تین اہم خطوں کی سیاست اور امن پر اثر انداز ہونے والے تین اہم مسائل کو اپنے انداز سے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان میں مشرق وسطیٰ کی سیاست میں مدتوں سے ہلچل اور عدم استحکام کا باعث بننے والا مسئلہ فلسطین، برطانیہ اور یورپ کی سیاست پر اثر انداز ہونے والا شمالی آئرلینڈ اور جنوبی ایشیا کی سیاست اور اسٹرٹیجک معاملات کو اپنے حصارمیں لیے رکھنے والا کشمیر کا مسئلہ شامل تھا۔
بل کلنٹن چوںکہ خود آئرش نسل سے تعلق رکھتے تھے اس لیے وہ شمالی آئرلینڈ کے تنازعے کو حل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ تینوں مقامات پر یہ بات خاصی اہمیت کی حامل تھی کہ قابض قوت کو ’’اگر مگر‘‘ کے ساتھ ایک زمینی حقیقت کے طور پر تسلیم کرائے جانے کو مرکزیت حاصل تھی۔ اوسلو معاہدے سے اس کام کی ابتدا ہوئی۔ اوسلو معاہدے میں اسرائیل کا مرکزی اور بالادست کردار ایک حقیقت کے طور پر موجود رہا اور فلسطینیوں کو دو ریاستوں کا مبہم سا اشارہ دیا گیا۔ فلسطینی اتھارٹی کو ایک میونسپل کمیٹی کی شکل دی گئی جس کے سربراہ کو مئیر کے بجائے صدر کا نام دیا گیا جسے اپنی حدود میں امن وامان قائم کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے اس منصوبے کو روز اول سے مسترد کیا۔ شمالی آئرلینڈ میں آئرش ری پبلکن آرمی تاج برطانیہ کی حاکمیت کے خلاف اور جمہوریہ آئر لینڈ سے ملنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ شمالی آئر لینڈ اور جمہوریہ آئر لینڈ دونوں میں اکثریت کیتھولک عیسائیوں کی تھی جس نے دونوں کے درمیان تعلق کو مضبوط کر رکھا تھا۔ 1999 میں یہاں امریکی کوششوں سے ’’گڈ فرائیڈے‘‘ معاہدہ ہوا جس میں شمالی آئرلینڈ کے عوام کا اصل مطالبہ کہیں دور دور تک دکھائی نہ دیا۔ اس معاہدے میں آئرش ری پبلکن آرمی کو سیاسی عمل کا حصہ بنا کر جنگ بندی کرادی گئی اور انہیں شمالی ائر لینڈ کی اسمبلی اور انتخاب کا راستہ دکھا دیا۔ بیس سال گزرگئے شمالی آئر لینڈ اب بھی برطانیہ کے کنٹرول میں ہے شاید شمالی آئر لینڈ کے عوام نے بھی حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے۔
نوے کی دہائی ہی میں امریکا نے کشمیر میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نام پر پاکستان اور بھارت کے درمیان سمجھوتا کرانے کی کوششیں شروع کیں۔ میاں نوازشریف پاکستان کی طرف سے ان کوششوں کو آگے بڑھاتے رہے۔ انہی کوششوں کے حصے کے طور پر واجپائی لاہور آئے اور فریقین مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک اوسلو طرز کے معاہدے کی طرف بڑھنے لگے۔ کشمیر کا مزاحمتی کیمپ ان کوششوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا رہا کیونکہ ان میں کشمیر کی سرزمین پر بھارت کے کنٹرول کو ایک نئے انداز کی جوازیت فراہم کی جانی تھی۔ کارگل نے اس حل کو ناکام بنایا بعد میں جنرل مشرف نے بھی اسی مسودے کو جھاڑ پونجھ کردوبارہ اپنالیا اور یہ کوشش وکلا تحریک نے ناکام بنادی۔ برسوں بعد فلسطین اور شمالی آئرلینڈ کے زمینی حالات بتا رہے ہیںکہ امریکی اسکرپٹ اور دبائو کے تحت کشمیر پر جو سمجھوتا ہونے جا رہا تھا اس میں کشمیریوں کے لیے اچھے موسموں کی کوئی نوید نہیں تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور میاں نوازشریف کی طرف سے بھارت کے ساتھ سمجھوتے کے قریب پہنچنے کا کریڈٹ تو لیا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس سمجھوتے کے حقیقی خدوخال کیا تھے؟۔
کشمیر پر اب بھی ایک غیر فطری سمجھوتے کے لیے دبائو موجود ہے اور ملک کے اندر ایک طبقہ اس کے لیے تیار بھی بیٹھا ہے۔ انہیں کسی غیر فطری سمجھوتے کی طرف بڑھنے سے پہلے فلسطینی لیڈر کے بیان کے بین السطور حالات اور مستقبل کا احوال جاننا چاہیے۔ مسائل کا آئیڈیل حل تلاش کرنا ایک مشکل عمل ہے مگر مسائل کا اس انداز سے حل تو نکلنا چاہیے کہ جو کسی حد تک ’’حل‘‘ کی تعریف پر پورا اُتر سکے۔