انسان، معاشرے اور تہذیبیں اپنے مثالیوں یا اپنے آئیڈیلز سے پہچانے جاتے ہیں۔ چناں چہ ہر ’’انسان‘‘ ہر ’’معاشرہ‘‘ اور ہر ’’تہذیب‘‘ اپنے آئیڈیلز سے محبت کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاملہ کچھ اور ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئے دن اسلام اور اسلامی آئیڈیلز کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال عطا الحق قاسمی اور حامد میر کے کالم ہیں۔
عطا الحق قاسمی نے اپنے کالم سلیم اور جمیل کی تلاش میں لکھا ہے کہ میں نے سلیم اور جمیل کو پاکستان میں ہر جگہ ڈھونڈا مگر وہ مجھے کہیں مل کر نہ دیے۔ یہاں سلیم سے مراد ’’عقل سلیم‘‘ والا سلیم ہے اور جمیل سے مراد ’’صبر جمیل‘‘ والا جمیل ہے۔ عطا الحق قاسمی کے بقول جب لوگ کسی کو دعا دیتے ہیں تو کہتے ہیں اللہ تمہیں ’’عقل سلیم‘‘ عطا کرے اور جب کسی کو پرسہ دیتے ہیں تو کہتے ہیں اللہ آپ کو صبر جمیل سے نوازے۔ (روزنامہ جنگ۔ 16 مئی 2019ء)
یہ عطا الحق قاسمی کے کالم کا اجمال ہے ورنہ کالم کی تفصیل میں عطا الحق قاسمی نے عقل سلیم رکھنے والوں کا مزید مذاق اڑایا ہے اور صبر جمیل کے حوالے سے فرمایا ہے کہ کوئی جمیل بھی صبر جمیل کا حامل نہ تھا۔
عطا الحق قاسمی ہمارے ان لکھنے والوں میں سے ہیں جو نواز شریف کے سوا ہر شخص کو کالا چشمہ لگا کر دیکھتے ہیں۔ چناں چہ انہیں ہر شخص کالا نظر آتا ہے۔ عطا الحق قاسمی کی نواز شریف سے محبت کا یہ عالم ہے کہ میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کرکے مع خاندان سودی عرب فرار ہوئے تو عطا الحق قاسمی نے اپنے کالم میں لکھا۔
’’قومی رہنما کی معجزانہ رہائی کو کسی کی فتح اور کسی کی شکست قرار نہیں دینا چاہیے۔ یہ اگر کسی کی فتح ہے تو پاکستانی سوچ کی اور اگر کسی کی شکست ہے تو انڈیا اور انڈین لابی کی۔ (11 دسمبر 2000ء)
اس تبصرے میں عطا الحق قاسمی کی ’’عقل سلیم‘‘ کا یہ کمال ہے کہ نواز شریف کی ’’شرمناک ڈیل‘‘،معجزانہ رہائی نظر آرہی تھی خدا جانے اس ’’عقل سلیم‘‘ کو شرمناک ڈیل میں پاکستانی سوچ کی فتح کیسے نظر آئی؟ اور انڈیا اور انڈین لابی کی شکست کا منظر کہاں سے دکھائی دیا۔ چناں چہ عطا الحق قاسمی کے اس تبصرے کو ’’صحافتی پستی‘‘ کی ایک مثال کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اپنے ایک اور تبصرے میں عطا الحق قاسمی مذکورہ بالا تبصرے سے بھی آگے نکل گئے۔ انہوں نے ’’شریفوں‘‘ کی شرمناک ڈیل کے حوالے سے فرمایا۔
’’میرے ایک دوست کی ضعیف العمر اور پرانے خیالات کی حامل والدہ کا تبصرہ کچھ اور ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے نواز شریف کو مدینے والے نے اپنے پاس بلا لیا‘‘۔
اللہ اکبر۔ لیجیے عطا الحق قاسمی نے شریفوں کی شرمناک ڈیل کو رسول اکرمؐ سے منسوب کردیا اور ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ یہ توہین رسالت ہے۔ رسول اکرمؐ ایک بدعنوان شخص کو کیوں مدینے بلانے لگے؟ غور کیا جائے تو جس طرح نواز شریف لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہیں اسی طرح عطا الحق قاسمی نے نواز شریف کی ڈیل کے سلسلے میں مدینے والے کا ذکر کرکے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ اب انہی عطا الحق قاسمی کا کہنا ہے کہ معاشرے میں نہ کہیں کوئی ’’عقل سلیم‘‘ والا موجود ہے اور نہ ’’صبر جمیل‘‘ والا۔ ظاہر ہے کہ نواز شریف، آصف زرداری اور الطاف حسین کے پرستاروں کی روحانی، اخلاقی اور علمی اہلیت ہوتی تو وہ ان لوگوں کے پرستار ہی کیوں ہوتے۔ چناں چہ عطا الحق قاسمی کو معاشرے میں کہیں عقل سلیم اور صبر جمیل نظر نہیں آتا تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ غالب نے کہا ہے۔
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
عطا الحق قاسمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اردو کے بوالہوس نہیں ہیں بلکہ انگریزی کے Bull Hawas ہیں۔
حامد میر نے عطا الحق قاسمی کے زیر بحث کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اب جا کر عطا الحق قاسمی کے شوق آوارگی کو سمجھ پایا ہوں۔ وہ دراصل عقل سلیم اور صبر جمیل کے حامل افراد کی تلاش میں تھے۔ بقول حامد میر عطا الحق قاسمی ان سے کہتے تو وہ انہیں عقل سلیم رکھنے والے کئی لوگوں سے ملا دیتے اور یہاں سے عطا الحق قاسمی صبر کا راز بھی پالیتے۔ یہاں تک تو خیر ہی خیر ہے مگر حامد میر نے آگے چل کر فرمایا ہے کہ جس طرح عطا الحق قاسمی کو عقل سلیم اور صبر جمیل کی تلاش تھی اس طرح مجھے ’’امین‘‘ اور ’’صادق‘‘ کی تلاش ہے۔ یعنی جس طرح عطا الحق قاسمی کے نزدیک عقل سلیم اور صبر جمیل والے ناپید ہیں اسی طرح حامد میر کا کہنا یہ ہے کہ معاشرے میں کہیں وہ امین اور صادق موجود نہیں جن کا آئین کی دفعہ 62 میں ذکر کیا گیا ہے۔
عطا الحق قاسمی کا کہنا ہے کہ انہیں کہیں عقل سلیم ملی نہ صبر جمیل نظر آیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عقل کے اندھے کو عقل سلیم مل بھی جاتی تو وہ اسے کیسے پہچانتا اور بے صبرے شخص کو صبر جمیل دکھائی بھی دے جاتا تو وہ اس کے صبر جمیل کی گواہی کیسے دیتا؟ ویسے عطا الحق قاسمی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہماری تہذیب اور علمی روایت میں عقل سلیم بھی صاف پہچانی جاتی ہے اور اس کی عدم موجودگی بھی واضح طور پر عیاں ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں تین مثالیں عرض ہیں۔ عقل سلیم وہ ہے جو امام غزالی کے پاس تھی اور ابن رشد کے پاس نہیں تھی۔ عقل سلیم وہ ہے جو غزالی کی معرکہ آرا تصنیف کہافتہ الفلاسفہ میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے مگر ابن رشد کی مشہور زمانہ تصنیف کہافتہ الہافہ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ عقل سلیم وہ ہے جس کا اقبال کی شاعری میں دریا بہہ رہا ہے اور اقبال کے خطبات میں جس کا کال پڑا ہوا ہے۔ اس کی وجہ بھی کسی اور تناظر میں اقبال نے خود بیان کردی ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
تُو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری
اقبال کی شاعری کو دیکھا جائے تو اس پر مولائے یثرب یعنی رسول اکرمؐ کے فیضان نظر کا سایہ ہے البتہ اقبال کے خطبات میں ہر صفحے پر ان کی ’’افرنگی دانش‘‘ اور ’’زناری ایمان‘‘ چھلانگیں مارتا پھر رہا ہے۔ لیکن بھلا عطا الحق قاسمی کو غزالی اور اقبال سے کیا لینا دینا؟۔ نواز شریف کے پرستار کے سامنے غزالی اور اقبال کا نام لینا بھی غزالی اور ااقبال کی توہین ہے۔ رہا صبر جمیل تو ہم نے اپنی زندگی میں ایک درجن افراد کو خود صبر جمیل کرتے دیکھا ہے اور اس سے زیادہ صبر جمیل کے حامل لوگوں کا تذکرہ سنا ہے۔ مگر عطا الحق قاسمی کا باطن چوں کہ ’’نواز آلود‘‘ ہے اس لیے وہ ہنس کو بھی دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ کیا یہ کوّا ہے؟۔
بلاشبہ ہمارا معاشرہ روحانی، اخلاقی اور علمی بحران میں مبتلا ہے مگر ابھی اس سے خیر حسن و جمال اور علم یکسر اٹھ نہیں گیا ہے۔ چناں چہ ہمیں اپنے روحانی، اخلاقی اور علمی بحران کا ذکر تو کرنا چاہیے اور اس کے مضمرات سے بھی معاشرے کو آگاہ کرنا چاہیے مگر ہمیں اپنے مذہبی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی آئیڈیلز کا ذکر تحقیر کے ساتھ اور اس انداز میں نہیں کرنا چاہیے کہ جیسے معاشرے کو اب ان آئیڈیلز کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں فضائی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے لیکن ہمیں اس فضائی آلودگی کو قبول کرکے اسے ’’معیار‘‘ نہیں بنادینا چاہیے کیوں کہ ہمارا دائمی معیار آکسیجن سے بھرپور صاف ستھری فضا ہے۔
آئیڈیلز ہر زمانے میں اہم رہے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے جب اہل عرب کے سامنے توحید کا آئیڈیل رکھا تو یہ آئیڈیل اہل مکہ کی روحانی اور علمی استعداد سے بہت زیادہ تھا اور جزیرہ نمائے عرب میں یہ آئیڈیل کہیں آئیڈیل کی حیثیت سے موجود نہیں تھا۔ مگر بہرحال پھر س تصور کے گرد پوری معاشرت اور پوری تہذیب کی تشکیل ہوئی۔ مکے کے کفار کے لیے آخرت کا تصور بھی ناقابل فہم تھا۔ وہ کہتے تھے کیا جب ہم خاک ہوجائیں گے تو پھر اسی خاک سے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ مگر پھر آخرت کا تصور اسلامی تہذیب کا ایک بڑا آئیڈیل بن کر اُبھرا اور صحابہ نے ثابت کیا کہ وہ دنیا کے لیے نہیں آخرت کے لیے جیتے تھے اور آخرت کے لیے شہید ہوئے تھے۔ اہل مکہ نبوت کے اعلان سے قبل رسول اکرمؐ کو امین اور صادق کہتے تھے مگر جیسے ہی آپؐ نے اعلان نبوت کیا اہل مکہ رسول اکرمؐ کی تکذیب کرتے نظر آئے۔ اس طرح انہوں نے صرف رسول اکرمؐ کی صداقت ہی کا انکار نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے فہم کا بھی انکار کردیا۔
زندگی کے دو بنیادی دائرے ہیں۔ ایک دائرہ اس سوال سے منسلک ہے کہ زندگی کیا ہے؟ یہ دائرہ زندگی کی آگہی اور اس کے فہم کا دائرہ ہے۔ مذہب اور خود زندگی سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ ہم زندگی کو اسی طرح بیان کریں جس طرح وہ ہمارے تجربے میں آئی ہے یا ہمارے سامنے ہے۔ زندگی کا دوسرا دائرہ اس سوال سے متعلق ہے کہ زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔ یہ مثالیوں یا آئیڈیلز کا دائرہ ہے۔ صرف ہمارے آئیڈیلز ہمیں بتاسکتے ہیں کہ زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔ ہم اس دائرے کو نظر انداز کریں گے تو کبھی انسان کا روحانی، اخلاقی، علمی، تہذیبی اور سماجی ارتقا نہیں ہوسکے گا۔ پھر انسان صرف ’’حاضر و موجود‘‘ کا اسیر ہو کر رہ جائے گا۔ مغرب میں جمہوریت سرمایہ مرکز جمہوریت یا کارپوریٹ ڈیموکریسی بن گئی ہے مگر چوں کہ جمہوریت مغرب کا آئیڈیل ہے اس لیے مغرب کبھی خود جمہوریت کی مذمت نہیں کرتا، اس سے مایوسی پیدا نہیں کرتا۔ مگر ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ لوگوں کو اسلامی آئیڈیلز ہی سے مایوس کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اسلام کہتا ہے کہ نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم از کم اس طرح پڑھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ نماز کا آئیڈیل ہے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ کروڑوں نمازیوں میں سے کچھ لوگ ہی آئیڈیل کے مطابق نماز پڑھ رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ جس طرح نماز پڑھ رہے ہیں اس کو ’’معیار‘‘ بنادیا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ نماز کے آئیڈیل کے مطابق چوں کہ نماز نہیں پڑھی جاسکتی اس لیے اس آئیڈیل کو معاذ اللہ ہم اپنی زندگی سے نکال دیتے ہیں۔ نماز تو خیر بڑی بات ہے اب تو معاشرے میں حقیقی معنوں میں محبت کرنے والے کمیاب ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اب والدین کی محبت کا معیار یہ ہے کہ والدین بچوں کو کیا کھلا پلا اور پڑھا رہے ہیں۔ اگر بچے اچھا کھا پی رہے ہیں، مہنگے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں پڑھ رہے ہیں تو گویا والدین اپنی محبت کا حق ادا کررہے ہیں۔
حالاں کہ انسان سازی کے اسلامی معیار یا آئیڈیل کو دیکھا جائے تو یہ باتیں ایک حد تک ہی اہم ہیں۔ ہماری غزل کی شاعری کا غالب حصہ محبت کے تجربے کی موت کے اعلانات سے بھر گیا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم محبت کے تجربے کے بارے میں کہہ دیں کہ چوں کہ کسی کو کسی سے محبت نہیں اس لیے اب ہمیں محبت کی ضرورت ہی نہیں؟
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اکثر آئین کی دفعہ 62 کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے تو یہ بہت بُری بات ہے اور اس بُری بات کی مزاحمت ہونی چاہیے مگر اسٹیبلشمنٹ کی غلط کاری کی وجہ سے یہ کہنا کہ ہمیں امین اور صدق جیسے تصورات کی ضرورت نہیں معاشرے کو آئیڈیلز سے محروم کرنے کی سازش کرنا ہے۔ اور آئیڈیلز کے خلاف سازش خود اسلام کے خلاف سازش ہے۔