وزیراعظم عمران خان کی افسر بکار خاص معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں وہ تو خود انتشار کا شکار ہے۔ مسلم لیگ نواز کی تنظیم نو بندر بانٹ کے سوا کچھ نہیں۔ عدالت عظمیٰ سے سزا یافتہ کو نائب صدر بنانا قانون اور عدالت کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف ہے۔ مگر یہ بھی تو دیکھنے کی چیز ہے کہ محترمہ کے نئے قائد عمران خان طمنچے مارنے کا شغل فرما رہے ہیں۔ شنید ہے کہ آپ نیب کے دائرہ اختیار میں پھنسیں تو وزیراعظم عمران خان نے آپ کی آواز پر لبیک کا نعرہ اس زور و شور سے بلند کیا کہ نیب کا دائرہ اختیار غبارہ بن کر رہ گیا۔
محترمہ! آپ سے زیادہ اس حقیقت سے کون واقف ہوگا کہ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالہ ہے جس کو چاہا ’’نرالے میاں‘‘ بنادیا۔ محترمہ نے درست ہی کہا ہے کہ عمران خان کا وزیراعظم کی مسند پر جلوہ گر ہونا خوش نصیبی کی بات ہے۔ اس سے بڑی خوش بختی کیا ہوگی کہ جو خان صاحب کو چور، ڈاکو اور لٹیرا کہے وہی ان کی کابینہ کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ خان صاحب کرکٹ کے نامور کھلاڑی تھے۔ ایک ایسے کھلاڑی جو فرنٹ فٹ پر کھیلنا ہی پسند کرتے ہیں، بیک فٹ پر کھیلنا انہیں پسند نہیں۔ ان کی کپتانی میں کھیلنا کھلاڑیوں کی خوش بختی ہے۔ محترمہ کو یہ بات کون سمجھائے کہ یہی قوم کی بدنصیبی ہے کہ عمران خان ابھی تک کرکٹ کی پچ سے باہر نہ آسکے اور ابھی تک خود کو کرکٹ کا کھلاڑی سمجھ رہے ہیں۔ جس دن عمرن خان نے کھیل اور سیاست کے فرق کو سمجھ لیا قوم کے ستارے گردش سے نکل آئیں گے مگر اس کے لیے خان صاحب کو کرکٹ کی پچ سے نکلنا پڑے گا جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔
محترمہ نے اپوزیشن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کرپٹ لوگوں سے دور رہے۔ ان کے لب و لہجہ سے تو یہ لگ رہا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم عمرن خان کو بین السطور کرپٹ لوگوں سے بچنے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ خان صاحب ان کے بین السطور مشورے پر عمل کریں۔ بات توفیق کی ہے اور توفیق برگزیدہ بندوں کو ملا کرتی ہے۔ بندوں کو بندروں کی طرح نچانے والوں کو نہیں۔ محترمہ کا خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ عمران خان کی حکومت کو تیسری قوت سے کوئی خطرہ نہیں۔ اصل خطرہ اپوزیشن سے ہے کیوں کہ اپوزیشن کی پالیسی اور اس کی روش نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے پر مبنی ہے۔ اپوزیشن آئے دن حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہتی ہے مگر عمران خان کے دل میں قوم کا درد ہے وہ قوم کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ نیا پاکستان ان کا جنون ہے۔ بے گھروں کو گھر اور بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنا ان کا سیاسی منشور ہے اور اس منشور پر عمل درآمد کے لیے وقت چاہیے۔ عمران خان کی کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کو یہ بات سوچنا چاہیے کہ حکومت کی عمر چند ماہ ہے، اس عمر میں قدم نہیں اُٹھتے صرف کرالنگ کی جاتی ہے، البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ کرالنگ کرنے والے یعنی گھٹنوں اور ہاتھوں کے سہارے چلنے والے بچوں کے چہرے پر جو مسکراہٹ ہوتی ہے وہ مسکان عمران خان کی شیر خوار حکومت کے چہرے پر کیوں نہیں۔ وہ اس مسکراہٹ سے کیوں محروم ہے؟۔
وطن عزیز میں مروج سیاست میں نااہلیت کے طمانچے کوئی معنی نہیں رکھتے، اقتدار میں آکر تو گھونسوں اور لاتوں کے نشانات بھی مٹ جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے قول و فعل کا تجزیہ کیا جائے تو ان کی وزارت عظمیٰ کا وقار بے وقعت اور اس کی حرمت بے معنی دکھائی دیتی ہے۔ حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ خان صاحب کی وزارت عظمیٰ گلے میں پڑا ڈھول بن گئی ہے جسے بجانا ان کی مجبوری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مجبوری کا عرصہ کتنا ہے وہ کب تک گلے میں پڑے ڈھول کو بجاتے رہیں گے؟۔ ہر طاقت کی طرح قوت برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ قوم اور حکومت کے درمیان یہ مقابلہ کب تک جاری رہے گا۔