عید کے بعد کیا ہوگا؟

240

 

 

مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد میاں نواز شریف جیل میں ہیں، شہباز شریف لندن میں انہوں نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی قیادت بھی چھوڑ دی ہے۔ اب مسلم لیگ کی لیڈر شپ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ہاتھ ہے۔ دونوں کو پارٹی کا نائب صدر بنادیا گیا ہے ان میں جس کا پلّہ بھاری ہوگا وہی مسلم لیگ کا اصل لیڈر قرار پائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ترازو کا پلڑا مریم نواز کے حق میں جھکا ہوا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور جیل میں ان کی ساتھی رہ چکی ہیں۔ میاں صاحب اپنے دورِ اقتدار میں انہیں جہاں بانی اور قیادت کی تربیت کے مرحلے سے بھی گزار چکے ہیں، وہ اس سے پہلے بھی ایک مزاحمتی لیڈر کی حیثیت سے اپنی صلاحیت منواچکی ہیں۔ اب قیادت کی نئی ذمے داریوں کے ساتھ وہ پھر میدان میں ہیں۔ دوسری طرف آصف زرداری نے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نوجوان بلاول بھٹو کے سپرد کردی ہے جو عمران حکومت کے خلاف پوری طرح مزاحمت کے موڈ میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنی افطار پارٹی میں مریم نواز کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا تھا جہاں انہوں نے چپ کا روزہ افطار کرتے ہوئے بلاول کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ تحریک کا فیصلہ عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس میں کیا جائے گا جب کہ عید کے بعد ہی میاں صاحب کی درخواست ضمانت کی سماعت بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوگی اور کہا جارہا ہے کہ تحریک چلانے یا نہ چلانے کا انحصار عدالتی فیصلے پر ہوگا۔ اگر عدالت نے میاں صاحب کی ضمانت منظور کرلی اور انہیں بغرض علاج لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تو پھر کیسی تحریک اور کیسی مزاحمت! مریم صاحبہ بھی اپنے والد کی خبر گیری کے لیے ان کے ہمراہ لندن روانہ ہوجائیں گی۔ پیچھے رہ گئے حمزہ شہباز تو وہ اپنے والد کی طرح مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں، وہ بلاول کی افطار پارٹی میں گئے ضرور تھے لیکن لاتعلق بیٹھے رہے اور کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ ’’بھیا کیتی؟‘‘ ادھر بلاول کا یہ حال ہے کہ وہ عمران حکومت کے خلاف گرج برس تو رہے ہیں لیکن بار بار پلٹ کر آصف زرداری کی طرف دیکھتے ہیں کہ ابا اب کیا حکم ہے۔ رہے زرداری تو وہ نیب کی احتساب عدالت میں پیشیوں پر پیشیاں بھگت رہے ہیں لیکن انہیں اُمید ہے کہ معاملہ کسی نہ کسی طرح ٹل جائے گا۔ منی لانڈرنگ کیس میں ان کے خلاف پورا ثبوت موجود ہے ان کے متعدد فرنٹ مین بھی پکڑے گئے ہیں اور ان میں سے کئی ایک وعدہ معاف گواہ بھی بن چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی ضمانت میں مسلسل توسیع ہورہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ابھی ان کی گرفتاری کا فیصلہ نہیں ہوا اور زردرای صاحب کو معاملات طے کرنے کے لیے ڈھیل دی جارہی ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ’’چمڑی جائے دمڑی نہ جائے‘‘ تو پھر ڈھیل کیسی؟۔
بہرکیف اس ڈھیل نے بلاول کی حکومت مخالف تحریک کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے، البتہ اس تحریک کے ساتھ اگر کوئی مخلص ہے تو وہ صرف مولانا فضل الرحمن ہیں جنہوں نے حکومت مخالف تحریک کے لیے خاصا ہوم ورک کیا ہے اور دینی مدارس کے طلبہ کی ایک فورس تیار کی ہے جو اسلام آباد میں دھرنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ لیکن مولانا صاحب سولو فلائٹ نہیں کرنا چاہتے وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے انہوں نے بہت محنت کی ہے وہ بار بار میاں نواز شریف سے ملے ہیں زرداری سے ملے ہیں اور دونوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ دوریاں اور گلے شکوے ختم کرکے سرجوڑ کر بیٹھیں اور اس نااہل حکومت سے نجات کی تدبیر کریں لیکن وہ دونوں لیڈروں کو مل بیٹھنے پر آمادہ نہ کرسکے۔ دونوں کے اپنے تحفظات اور اپنے مسائل تھے، دونوں قانون کی زد میں آئے ہوئے تھے ایک کو قانون سزا دے چکا تھا اور وہ سزا بھگت رہا تھا دوسراسز اکے انتظار میں تھا اور اس سے بچ نکلنے کی تدبیریں سوچ رہا تھا ایسے میں دونوں پر مولانا صاحب کا جادو نہ چل سکا۔ اب کہا جارہا ہے کہ عید کے بعد اے پی سی ہوگی جس میں حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا جائے گا، لیکن سیاسی جوتشیوں کا کہنا ہے کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکے گی، اگرچہ حکومت نے مہنگائی، بیروزگاری، گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور آئی ایم ایف کی من مانیوں کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو تحریک چلانے کے لیے خاصی سہولت فراہم کردی ہے لیکن عوام کی اکثریت ان جماعتوں اور ان کے آزمودہ لیڈروں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عوام انہیں بار بار آزما چکے ہیں اور موجودہ مصائب کا ذمے دار بھی ان لیڈروں کو ہی سمجھتے ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی کی قیادت نے یہ دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ رابطہ عوام کی مہم تو ضرور چلائے گی اور عوام کو موجودہ سنگین صورتِ حال سے آگاہ کرے گی، لیکن حکومت مخالف کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی بلکہ وہ عوام میں اس شعور کو اُجاگر کرے گی کہ وہ موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے مخلص اور دیانتدار قیادت کا انتخاب کریں کہ یہی ان کے مصائب کا علاج ہے۔ جمہوری عمل جیسا بھی ہے اسے جاری رہنا چاہیے اور عوام کو مستقبل کی قیادت کے لیے اپنا ذہن تیار کرنا چاہیے۔
سچ تو یہ ہے کہ عوام ساری اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو بھگت چکے ہیں اس وقت وہ تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کی چھری تلے آئے ہیں، بس ایک جماعت اسلامی رہ گئی ہے اسے بھی آزما لینا چاہیے کیا خبر عوام کی لاٹری نکل آئے اور جماعت اسلامی کی مخلص قیادت انہیں روشن مستقبل سے ہمکنار کردے بس آزمائش شرط ہے۔