اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکمران دنیاوی اعتبار سے ملکی معاملات چلانے اور ملک کے عوام کو فلاحی ریاست بنا کر دینے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ان میں اس کی صلاحیت ہی نہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کے وقت سے حکومت کی جانب سے دینی حوالوں سے چھیڑ چھاڑ گستاخی کی حد تک اقدامات، الفاظ ، جملے اور تبصرے کیے جارہے ہیں۔ کبھی قادیانی کو مشیر بنالیا تو اس کی حمایت میں کچھ دیوانے چیخنے لگے، پھر گستاخ رسول آسیہ کی حمایت کی گئی، سود کے حق میں دیوانگی کی حد تک مہم چلائی گئی اور اب ٹیکس کو عمرے سے ملانے لگے۔ روزنامہ جنگ میں طاہر خلیل اور تنویر ہاشمی کے نام سے شائع ہونے والی خبر میں عمرہ زائرین کی تعداد اور ٹیکس دہندگان کی تعداد کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے بھی خبر بنائی، اس کی سرخی نکالی اور جن لوگوں نے اس کو شائع کرنے کی اجازت دی ان کے بارے میں دو ہی باتیں کہی جاسکتی ہیں… یا تو وہ عقل سے بالکل عاری ہیں یا ان کے اندر دین اور اسلامی شعائر سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ خبر کے مطابق 30 مئی تک 15 لاکھ 90 ہزار 731 پاکستانیوں نے عمرہ کیا اور ٹیکس دینے والوں کی تعداد 12 سے 14 لاکھ کے درمیان ہے۔ اس خبر کو وزیراعظم کے ویڈیو پیغام اور ایف بی آر کے ترجمان کے تبصرے سے ملایا گیا ہے جو واضح طور پر شرارت ہے۔ خبر کی شرارت اس بات سے سمجھ میں آتی ہے کہ اگر عمرہ زائرین کی تعداد 15 یا 16 لاکھ ہے تو اس میں اوسطاً فی گھر 5 افراد رکھے جاتے ہیں اور عمرے کے لیے بسا اوقات پورا خاندان دس بارہ افراد پر مشتمل گروپ جاتا ہے۔ کیا کسی تاجر کے ماں، باپ، بیٹے، بیٹی، چھوٹے بچے سب فائلر ہوتے ہیں۔ ٹیکس گزار اور فائلر تو ایک ہی آدمی ہوتا ہے اگر اس تعداد کو 5 پر بھی تقسیم کیا جائے تو یہ 3 لاکھ نکلتی ہے۔ جب کہ اس خبر کو بنانے اور شاائع کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ کمیٹیاں ڈال کر روپیہ روپیہ جوڑ کر برسوں جمع کرتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کب پیسے پورے ہوں اور کب وہ عمرہ کرنے جائیں۔ ان میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے، تنخواہ دار اور سفید پوش لوگ ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اپنے بچوں کے خرچ پر عمرہ کرتی ہے جو بیرون ملک مقیم ہوتے ہیں، وہاں سے رقم بھیجتے ہیں اور ان کے والدین یا بزرگ عمرہ کرتے ہیں۔
عمرہ زائرین کو ٹیکس دہندگان سے ملانے والوں کا دماغ اس حد تک مائوف ہے کہ انہیں کسی چیز کا علم نہیں۔ حتیٰ کہ جائزہ 30 مئی تک کا لگایا۔ اگر 31 مئی تک کے اعداد و شمار ڈال دیتے تو
کون پوچھتا۔ عمرہ زائرین کی تعداد اور ٹیکس فائلرز کے موازنے کی بات تو بہت واضح طور پر سمجھ میں آجانی چاہیے، اگر دل و دماغ میں دین اور اس کے شعائر کے خلاف خبث نہ بھرا ہو تو۔ اب آتے ہیں وزیراعظم کے پیغام کی طرف جس میں انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ صرف ایک فی صد افراد ٹیکس دیتے ہیں، یہی لوگ دراصل 22 کروڑ پاکستانی عوام کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں۔ وزیراعظم کسی قابلیت کی بنیاد پر تو بنایا نہیں جاتا، برسوں پہلے ڈراما تعلیم بالغان میں یہ ڈائیلاگ بولا گیا تھا کہ زیر تعلیم سے پہلے ووٹ کا واو لگادیں تو وزیرتعلیم بن جاتا ہے۔ شاید وزیراعظم بھی اسی طرح بنے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف ایک فی صد افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے شاید صرف فائلرز کو ٹیکس دہندہ تصور کرلیا ہے۔ ذرا وزیراعظم بتائیں گندم خریدنے پر کتنا ٹیکس مل والے ادا کرتے ہیں، ان سے بڑے بیوپاری جو آٹا خریدتے ہیں اس پر کتنا ٹیکس دیتے ہیں، یہی آٹا جب روٹی بن کر نان بائی سے خریدا جاتا ہے تو اس پر بھی ٹیکس دیا جاتا ہے۔ صرف ایک چیز پر تین مرتبہ ٹیکس۔ اسی سے میدہ نکالا جاتا ہے، میدے سے ڈبل روٹی بنتی ہے اس پر بھی ٹیکس۔ انڈے پر ٹیکس، پٹرول پر چھ قسم کے ٹیکس، گیس پر ٹیکس، بجلی پر کئی ٹیکس، نمک تک پر ٹیکس۔ ایک لقمہ بھی کسی کے منہ میں ٹیکس کے بغیر نہیں جاتا۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ایک فی صد لوگ ٹیکس دے رہے ہیں۔ انہیں کوئی بتانے والا ہے کہ 22 کروڑ پاکستانی اعشاریہ صفر صفر ایک فی صد حکمران طبقے کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں۔ ہر پاکستانی یہ سارے ٹیکس مجبوراً دے رہا ہے۔ سننے میں بڑا اچھا جملہ ہے کہ ایک فی صد پاکستانی 22 کروڑ عوام کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 22 کروڑ عوام حکمران طبقے کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔ ٹیکسوں کی تفصیل میں کیا جائیں، اس ملک کے حکمرانوں نے ہر چیز پر ہر ایک سے ٹیکس وصول کرنے کا دھندا شروع کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ بینک سے رقم نکالنے پر ٹیکس ہے، جمع کرنے پر بھی ٹیکس ہے اور اگر اکائونٹ کھول لیا اور بینک کی مطلوبہ رقم کھاتے میں نہیں تو بھی ٹیکس کٹے گا۔ موبائل فون پر ٹیکس تو عذاب بنا ہوا ہے۔ عدلیہ کے یوٹرن کی وجہ سے موبائل فون کمپنیوں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت ملی ہوئی ہے۔ سی این جی پر بھی ٹیکس ہے، ان میں سے بیشتر ٹیکس وصول ضرور ہوتے ہیں لیکن سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر جی ایس ٹی اشیا کی خرید و فروخت کے وقت صارف سے وصول کرلیا جاتا ہے لیکن دہرا کھاتہ بنا کر حکومت کو ٹیکس نہیں دیا جاتا۔ بڑے بڑے ہوٹل، بڑی موبائل کمپنیاں، بڑے پرائیویٹ اسپتال یہ بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ آغا خان چیریٹی اسپتال ہے اور ٹیکس کے معاملے میں سب کی طرح کام کررہا ہے۔ یہ سارا کام ہوٹل والے، موبائل کمپنیاں اور اسپتال والے اکیلے نہیں کرتے۔ ایف بی آر کی مکمل سرپرستی ہوتی ہے۔ عمرہ زائرین اور ٹیکس دہندگان کے بارے میں خبر پر کوئی آواز بھی نہیں اُٹھی۔ سب کو دو لائن کی خبر اور چھوٹی سی تصویر جو لگوانی ہوتی ہے۔