ذہنی دبائو یا خاندانی پریشر

230

 

ڈاکٹر صاحب میرے بھائی کا مسئلہ ہے۔ اس کے سر میں درد رہتا ہے۔ سر درد ہر وقت رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سر کے اندر ہانڈی پک رہی ہے۔ شعاعیں نکلتی ہیں۔ بس سمجھ نہیں آتا کیا کریں۔ ہم نے محلے کے ایک ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے درد کی دوا دی اور بتایا کہ کمزوری ہے۔ پھر 2 ڈرپ بھی لگائیں۔تھوڑا سا فائدہ ہوا۔ پھر روزانہ ڈرپ میں طاقت کا انجکشن ڈال کر دیئے۔ 7 دن میں تھوڑا سا بہتر لگا لیکن پھر درد دوبارہ رہتا ہے۔ 2 مہینے ہوگئے۔ ہم نے قریبی بڑے اسپتالوں میں بھی دکھایا۔ وہاں انہوں نے ٹیسٹ کراکے CT Scan بھی کرایا لیکن درد ٹھیک نہ ہوا۔ دماغ کے CT Scan کی رپورٹ بھی نارمل تھی۔ پھر ہم نے سائکا ٹرسٹ کو دکھایا۔ اس نے بتایا کہ depression ہے۔ اس نے بھی 20 دن دوا دی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ صرف یہ ہوا کہ دوائیں زیداہ کھانے سے اسے نیند زیادہ آتی ہے۔ اب کالج اور ٹیوشن سے بھی چھٹیاں ہونے لگیں۔
طالب علم کا نام ’’شامل‘‘ تھا۔ اس نے میٹرک کا امتحان 80 فیصد سے پاس کیا تھا۔ اسکول کے ساتھ کالج بھی تھا۔ اس میں پڑھ رہا تھا۔ طالب علم کو اس کی بہن لائی تھیں۔ جو میڈیکل کالج کی طالبہ تھی۔ اس کے والد صاحب نے PHD کیا تھا۔ اب اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ایک بھائی CA کررہا ہے۔ تمام کزن پروفیشنل کالجز میں پڑھ رہے ہیں۔ انتہائی پڑھا لکھا خاندان ہے۔ طالب علم کی بہن نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اب یہ چھپ کر سگریٹ بھی پینے لگا ہے۔ کھانا گھر میں کھاتا ہے۔ اکثر زنگر برگر، Pizza اور اسی طرح کے اچھی جگہ کے کھانے زیادہ کھاتے ہیں۔ اس لڑکے شامل سے بات کی تو اس نے بتایا کہ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے بچپن سے زبردستی پڑھایا جارہا ہے۔ ہم اسکول سے آتے تھے تو قاری صاحب آجاتے وہ ڈیڑھ گھنٹہ پڑھاتے۔ ان کے جانے کے بعد ہم 3 گھنٹے ٹیوشن پڑھنے جاتے۔ وہاں سے آکر اتنے تھک جاتے کہ صرف کھانا کھاتے اور سو جاتے۔ صبح 6:15 بجے اسکول کی وین آجاتی اور پھر اس میں جھٹکے کھاتے ہوئے، سوتے ہوئے اسکول جاتے، ہمارے خاندان میں بہت پریشر ہوتا ہے۔ امتحان سے پہلے ڈانٹ سننے کا زمانہ ہوتا ہے۔ پڑھائی پڑھائی اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ماموں، خالہ، چچا، پھوپی کے بچوں سے نمبر اچھے آنے چاہئیں۔ میری ماما کہتیں بیٹا دیکھو ایسی تیاری کرو کہ سب کے سامنے یہ بتا سکوں کہ میرا بیٹا پروفیسر صاحب کا بچہ ہے۔ اتنے اچھے نمبر لایا ہے۔ بس تمہارا ارزلٹ دیکھ کر شرمندہ نہ ہوں اور اسی پریشر میں زندگی آگے بڑھتی گئی۔ ہر سال رزلٹ کے بعد خاندان کے بچوں کے ذلیل ہونے کا موسم ہوتا۔ جن بچوں کے اچھے نمبر ہوتے ان کے والدین فخر کرتے اور جن کے نمبر کم ہوتے ان کے بچے ذلیل ہوتے۔ امی ابو برا بھلا کہتے اور کزن بھی مذاق اڑاتے۔ میٹرک میں بھی میرے سر میں درد رہتا تھا۔ لیکن کم تھا جب میٹرک میں A-1 گریڈ آیا تو خوشی ہوئی۔ لیکن پھر بھی 2 کزن یاسے تھے جن کے نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔ امی ابو نے کہا کہ تھوڑی اور محنت کرلیتے تو خاندان میں ہمارا نام اونچا ہوجاتا۔
انٹر میں مجھے بائیولوجی دلادی ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ مجھے ڈاکٹر بننے کا بالکل شوق نہیں۔ بائیولوجی میری سمجھ میں نہیں آئی لیکن گھر والوں کا پریشر ہے کہ تمہیں 80 فیصد سے زیداہ نمبر لانے ہیں۔ ہر وقت امی ابو کی سنتا ہوں۔ ابا کالج میں پروفیسر ہیں، وہ کہتے ہیں بیٹا competition کا زمانہ ہے اگر پیچھے رہ گئے تو تمہارا کیا ہوگا۔ میری عزت کا خیال کرو۔ یہ وہ تیر اور بم ہیں جو مجھ کو مسلسل تکلیف دے رہے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کہیں بھاگ جائوں۔ کیا کروں۔ مجھے پکا یقین ہے انٹر کے امتحان میں 60 فیصد نمبر بھی نہیں آئیں گے۔ اس سوچ کے ساتھ کہ خاندان والے میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ سر درد رہتا ہے۔
میں نے اس بچے کو تسلی دی۔ اس کی بہن سے بات کی۔ اس نے بتایا کہ میں خود DOW میں final year میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اتنے پریشر میں تو یہی ہوگا۔ بچے کے والدین سے بات کی تو اندازہ ہوا کہ امریکن یونیورسٹی کے بچوں کی مثالیں دے رہے ہیں کہ کس طرح competition میں وہان بچے پڑھ رہے ہیں۔ والد صاحب کے بھائی کے بچے امریکا کی بڑی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔
ان کے والد صاحب کو بتایا کہ شاید آپ کو امریکی یونیورسٹی کے بچوں کا حال نہیں معلوم، بہت سے بچے وہاں دوائیں کھا کر پڑھتے ہیں تا کہ یادداشت میں اضافہ ہو اور نفسیاتی ڈاکٹرز میں بھی وہاں اضافہ ہورہا ہے۔
جہاں تک مقابلہ کا رجحانا ہے۔ آپ کے بقول اصل چیز تو مقابلہ ہے۔ تو یہ سوچ ہی انسان کو جانور بنادیتی ہے۔ یہ تو جانوروں والی باتیں ہیں جو انسانوں نے adupt کرلی ہیں۔ علم فخر کرنے، ڈگریاں لینے، زیادہ مال کمانے کے لیے حاصل کرنا یہ مقاصد رکھنے سے تو آپ کا بچہ ٹھیک نہیں ہوسکتا اور یہ رجحان کراچی کے معاشرے، تعلیم یافتہ گھرانوں میں بہت ہے کہ بچوں کو پریشر میں رکھا جائے۔ آپ غذائیں بھی بچے کو وہ دیتے ہیں جس میں MSG خالی سالٹ ہوتا ہے۔ جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
ان کے والدین کے ساتھ کئی میٹنگ کے بعد وہ اس پر آمادہ ہوگئے کہ وہ بچے کو آزاد چھوڑ دیں گے، بچے نے اپنا سبجیکٹ math تبدیل کیا۔ اس کا انٹر کا پہلا سال ضائع ہوا۔ اس نے آزادی سے پڑھا اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا۔ سر درد اس وقت ختم ہوگیا جب والدین نے آزادی کے ساتھ پڑھنے اور پریشر نہ ڈالنے کی پالیسی بنالی۔
خاندانی پریشر سے ہونے والے سر درد کا علاج دوائوں سے ممکن نہیں بلکہ آزادی اس مسئلہ کا حل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ آزااد انسان صحت مند ہوتا ہے۔ اصل انسان جب ہی ممکن ہے جسے نہ کوئی خوف ہو نہ کوئی غم ہو۔