ادب اور صحافت علم کی ہمہ دانی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ کم کم ہی ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو صحافت اور ادب کے ہر پہلو پر خصوصی مہارت رکھتی ہوں۔ بشیر انصاری کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہوتا تھا جو پرنٹ اور االیکٹرونک میڈیا کے ہر شعبے میں نمایاں حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اخبار، ریڈیو اور ٹی وی سے متعلق کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں انہوں نے اپنی ہمہ گیریت اور ہمہ دانی کا اعتراف نہ کرایا ہو۔ بہاولپور کو قلب پاکستان کہا جاتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس دل کی دھڑکنیں لاہور کی نبض پر گنی جاتی ہے، یوں تو جہانگیر ترین جیسی اہم اور ممتاز صنعتی شخصیت بھی بہاولپور سے محبت کا دم بھرتی دکھائی دیتی ہے مگر یہاں صنعتیں لگانا خسارے کا سودا سمجھتی ہے سو، بہاولپور میں ادب اور صحافت کو کار فضول سمجھا جاتا ہے مگر جن کے سر میں ادب اور صحافت کا سودا سمایا ہو وہ اس کار فضول میں اپنی جمع پونجی گنوا کر کرچی، لاہور یا اسلام آباد کا رُخ کرتے ہیں۔ بشیر انصاری نے بھی اپنی جمع پونجی گنوا کر اسالام آباد کا رُخ کیا تھا اور وہاں سے عدم آباد چلے گئے۔ بشر ہونے کے ناتے ان میں کئی خامیاں ہوں گی مگر ان کی خوبیوں نے ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی کی۔ ہمارے تعلق کی بنیاد روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ تھا جو سکھر، لاہور اور بہاولپور سے بیک وقت شائع ہوتا تھا۔ یہ 80ء کی دہائی کی بات ہے وہ دوستوں سے کہا کرتے تھے ناصر حسنی کو سمجھائو، کراچی یا لاہور چلا جائے بہاولپور میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع نہ کرے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ کسی کی صلاحیت اور قابلیت کو برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
عام مشاہدہ ہے کہ اکثر لوگ دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے کا شغل فرماتے ہیں مگر انصاری مرحوم کندھا پیش کیا کرتے تھے، بلا امتیاز اہلیت اور قابلیت کی قدر کیا کرتے تھے۔ وہ ایک بلند پایہ صحافی تھے مگر غربت کی دیمک انہیں چاٹ گئی اور رہی سہی کسر ناقدری کے گھن نے پوری کردی۔ بشیر انصاری کے اصرار پر ہم نے بہاولپور کو خدا حافظ کہا مگر بہاولپور شہ رگ کے قریب ہی رہا۔ روزنامہ جسرت کے مدیر عالیٰ مدنی مرحوم اپنے ادارتی فرائض نبھانے میں بہت محتاط تھے، ایک بار ہم نے رضا عابدی کی کتاب ’’شیر دریا‘‘ پر کالم لکھا تو انہوں نے بلالیا اور کہا: حسنی! تم نے اپنا کالم اور جسارت کا ادارتی صفحہ ضائع کردیا۔ وجہ دریافت کی تو کہا۔ تم نے ادبی کالم ادارتی صفحے کے لیے کیوں دیا؟۔ رضا عابدی سے میرے تعلقات بھی ہیں اور بہت پرانے ہیں، تمہاری سناشائی تو چند برسوں پر ہی محیط ہوگی۔ عرض کی کہ جناب! میں نے تو ان کی صورت بھی نہیں دیکھی۔ پھر ان کی کتاب کی تقریب رونمائی کے حوالے سے کالم کیسے لکھا؟ تم کراچی میں ہو اور تقریب رونمائی بہاولپور میں ہوئی تھی گویا! تم نے یہ کالم بہاولپور سے اظہار محبت کے لیے لکھا ہے کیا؟ بہاولپور کے لوگ بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں۔ جناب! میں کئی سال سے کراچی میں مقیم ہوں۔ پروفیسر نواز کاوش نے بہاولپور کے ادب کے حوالے سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تو میرا ذکر بھی بھرپور نداز میں کیا۔ حالاں کہ میرے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں انہیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ اِدھر اُدھر سے جو کچھ ملا اپنے تھیس میں اس کا تذکرہ کردیا، جہاں ایسی محبت کرنے والے ہوں وہاں کے درودیوار بھی پیارے لگتے ہیں۔ تمہارے احساسات اور خیالات سے خوشی ہوئی مگر آئندہ ادبی کالم ادارتی صفحہ پر شائع نہیں ہونا چاہیے۔ خوب صورت چہروں کی طرح بہاولپور بھی دل میں اُتر جاتا ہے ایک بار کی رفاقت عمر بھر کی محبت بن جاتی ہے۔ بشیر انصاری کے دل میں بہاولپور اُتر گیا تھا۔ بہ دل ناخواستہ وہ راولپنڈی جا بسے تو ہم نے کہا تھا۔ انصاری صاحب! آپ تو کہا کرتے تھے کہ جب تک سانس میں سانس ہے بہاولپور چھوڑنا ممکن نہیں۔ پھر سے یہ انہونی کیسی ہوئی۔ انہوں نے بڑے دُکھ کے ساتھ کہا تھا۔ حسنی! آدمی اپنی ضروریات سے تو سمجھوتا کرسکتا ہے مگر بچوں کی ضروریات سے صرف نظر ممکن ہی نہیں۔ یہ کیسی تلخ اور شرمناک حقیقت ہے کہ بشیر انصاری کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے قلم کا سودا کرنا پڑ۔ حکمران طبقے کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جس شاعر کے گانے گا کر گلوکار شہرت اور مقبولیت کی منزلیں سر کرتا ہے وہاں شاعر کو لاپتا شخص بنادیا جاتا ہے۔ گانے والے پر انعام و اکرام کی بارش کی جاتی ہے اور گانے لکھنے والا اپنا قلم بیچ کر گھر چلاتا ہے اور کہانی لکھنے والا خود کہانی بن جاتا ہے۔ دوسروں کو عزت و شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے والا بشیر انصاری آج منوں مٹی کے نیچے دبا سسک رہا ہے۔ کوئی ہے جو اس کے دُکھ کا احساس کرسکے۔