مہنگائی سے غریب کبھی متاثر نہیں ہوتا

253

 

 

سنہ 1947 سے تا حال پاکستان میں مہنگائی سے غریب کبھی متاثر نہیں ہوا کیونکہ جب بھی پاکستان میں ہونے والی مہنگائی سے اگر کوئی طبقہ متاثر ہوا ہے وہ متوسط یا پھر اس سے اونچے درجے والے افراد کا ہوا ہے۔ یہ بات کیونکہ ہمیں پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے، قابل، اہل اور اعلیٰ درجوں کے طبقے والے بتاتے رہے ہیں اس لئے اس پر یقین نہ کرنا بھی ایک گناہ عظیم ہی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایسی قابل، اعلیٰ تعلیم یافتہ، اہل، اعلیٰ کلاس والے اور حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے افراد کی پوری ٹیم ٹی وی پر بیٹھ کر غریب عوام کو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہے تھی کہ ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آنے والا ہے اس سے ملک کی 75 فیصد غریب آبادی پر کسی بھی قسم کا نہ تو کوئی بوجھ پڑے گا اور نہ ہی وہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متاثر ہوں گے البتہ اس کا سارا کا سارا بوجھ اس 25 فیصد گھرانوں اور آبادی پر پڑے گا جو عیش و آرام کی زندگیاں گزارہے ہیں اور بہت اعلیٰ کلاس والے کہلاتے ہیں اس لئے وہ افراد جو غربت سے بھی نیچے درجے کی زندگی گزار رہے ہیں اور بہت مشکل سے اپنے لئے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرپاتے ہیں، ان پرمہنگائی کا ذرہ برا بر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس پریس بریفنگ کے بعد پورے پاکستان میں آہ و بکا مچی ہوئی ہے اور بڑے بڑے فارم ہاؤسز والوں، کئی کئی کنال کی کوٹھیوں بنگلوں والوں، کارخانہ داروں، زمینداروں، جاگیر داروں، چوہدریوں، ملکوں، خانوں اور سرداروں کے گھروں میں شور قیامت بر پا ہے اور ان کی چیخوں سے پورا پاکستان گونج رہا ہے جبکہ وہ 75 فیصد سے بھی زیادہ گھرانے جو اکثر خالی پیٹ بھی سوجانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، وہ نہایت سکون و اطمنان کے ساتھ حسب معمول مطمئن، شادان و فرحان گھوم پھر رہے ہیں۔
کل حکومت کی پوری اقتصادی ٹیم نے جو باہر سے بلائی گئی تھی اور جن کے اذہان 22 کروڑ عوام سے بھی بہت زیادہ بڑے اور وسیع تھے، پاکستان کے وہ عوام جو مہنگائی کی چکی کے پاٹوں کے بیچ بہت بری طرح پس رہے ہیں، ان کیلئے یہ خوش کن خبر سنائی کہ “لوگوں کو مہنگائی پریشان کر رہی ہے، ہمیں مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے، مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی کو استعمال کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں حکومت 75 فیصد صارفین، جو 300 یونٹ سے کم بجلی استعمال کررہے ہیں، ان پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، گیس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں 40 فیصد صارفین کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، احساس پروگرام کی رقم 100 ارب سے بڑھا کر 180 ارب کی جارہی ہے، رواں برس سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 600 ارب سے بڑھا کر 925 ارب روپے کیا جارہا ہے تاکہ بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے منصوبے مکمل ہوسکیں، ترقی کا سفر قوم مل کر طے کرے گی‘‘۔
اسی خبر میں ایک بڑی خوشخبری بھی شامل تھی اور وہ یہ خوشخبری تھی کہ ہم پہلے تو جتنی بھی کٹوتی کیا کرتے تھے وہ سویلین بجٹ کی مد میں کرتے تھے لیکن اس مرتبہ بجٹ کی کٹوتی “عسکری” مد میں بھی ہوگی۔ اب معلوم نہیں اس بات کو وہ غریب عوام، جو مہنگائی کی چکی کے پاٹوں تلے بری طرح پس رہے ہیں، انھیں خوش کرنے کیلئے کہہ رہے تھے یا یہ خبر ان کیلئے مزید بجلی بن کر گرے گی، اس کا فیصلہ تو آنے والے ایام ہی کریں گے اس لئے کہ صوبوں کی ایک خطیر رقم تو ان غریب عوام کی محافظت کے نام پر یہی طبقہ ہر سال وصول کیا کرتا ہے تو کہیں معاملہ اِس ہاتھ دے اور اْس ہاتھ لے والا تو نہیں ہو جائے گا؟۔
پاکستان کے عوام خوامخواہ حکومت میں بیٹھے ہوئے اور درآمد شدہ افراد کے اذہان پر بد ظنی کا اظہار کرتے ہیں۔ گزشتہ 70 برس سے بھی زیادہ عرصے سے یہی تو ہیں جو ہمیشہ غریبوں کا بھلا سوچتے آئے ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں یہی سمجھاتے دکھائی دیئے ہیں کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، ٹیکس لگارہے ہیں، قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں، بجلی پانی اور تیل کی قیمتیں برھا رہے ہیں، اس سے کسی صورت غریب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کوئی اور ہے جو اس طرح ڈھارس بندھا تا ہو اور غریبوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہو؟۔ ویسے ایمانداری سے کوئی یہ بتائے کہ اگر ہر ہونے والی مہنگائی کا اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہوتا تو کیا 70 سال سے مسلسل پڑنے والا یہ اثر اب تک غریبوں کی موت کا سبب نہیں بن گیا ہوتا؟۔ غریب اگر اب بھی زندہ ہیں تو یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مہنگائی کا اثر غریبوں کی بجائے ہمیشہ اعلی “کلاسوں” والوں پر ہی پڑتا رہا ہی اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہر وہ فرد جو ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا ہو وہ پاکستان سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوتا رہا ہے۔ وہ اعلیٰ سول عہدیداران ہوں، وزرا و وزرائے اعظم ہوں، سرکاری عہدیدار ہوں، جرنیل ہوں، کرنیل ہوں، جج صاحبان ہوں یا موجودہ اقتصادی ٹیم والے، ان پر جب جب بھی مہنگائی کا اثر پڑتا ہے یہ ملک چھوڑ کر باہرممالک کا رخ کر لیتے ہیں۔
بات بہت ہی عام سی ہے، دکھ کا احساس اسی کو زیادہ ہو گا جس نے سکھ کے عالوہ کچھ دیکھا ہی نہ ہو، چھالے تو اس کے پاؤں میں پڑیں گے جو زندگی بھر ننگے پاؤں نہ پھرا ہو، بھوک تو اس سے برداشت نہیں ہوگے جس کا دسترخوان، ہزاروں اقسام کے خوانوں سے خالی رہا ہو، تنگ دستی کا احساس اس کو کیسے ہوگا جو سونے اور چاندی کے چمچوں سے کھانا کھاتا ہو اور غربت کا احساس اس کو کیا ہوگا جس نے زندگی کا ایک لمحہ بھی کسی فٹپاتھ پر سو کر نہ گزارا ہو۔ جس فرد کی زندگی گزری ہی دنیا کی ہر آسائش و آرام کے بغیر ہو اس کی اگر تکالیف میں مزید اضافہ بھی ہوجائے تو اس کو کیا فرق پڑے گا کہ وہ تو دنیا کا ہر دکھ، مصیبتیں، تکالیف اور اذییتیں جھیلنے کا عادی ہو ہی چکا ہوتا ہے۔ اس فلاسفی کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم کی اقتصادی ٹیم کا یہ کہنا کہ ہم جو جو بھی مشکل فیصلے کر رہے ہیں، جن جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں، مہنگائی سے نمٹنے کیلئے جو جو اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں، اس سے ملک کے کسی بھی غریب انسان کو گھبرانا نہیں چاہیے اس لئے کہ مہنگائی کا اثر اس کی زندگی پر کسی بھی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں کر سکتا۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ قیمت کسی بھی مد میں کسی بھی شے کی بڑھادی جائے، اس کا اثر لوٹ کر آتا ہی صرف غریب پر ہے اور کسی پر بھی نہیں۔ ممکن ہے کہ بجلی کا بل میرے گھر میں وہی آئے جو بجلی مہنگی ہونے سے قبل آیا کرتا تھا لیکن بجلی کے استعمال سے بننے والی ہر شے پر بڑھی ہوئی قیمت تو مجھ غریب ہی کو ادا کرنا پڑے گی۔ کیا جی ایس ٹی براہ راست غریبوں سے وصول کیا جاتا ہے؟، نہیں، لیکن جن سے وصول کیا جاتا ہے وہ اس ٹیکس میں اپنا منافع بھی شامل کرکے وصول تو صارف سے ہی کرتے ہیں۔ میں ایک بہت چھوٹی سی بات کہہ کر اپنی بات ختم کرونگا کہ جب میں اپنے بال ترشوانے اور خط بنوانے ایک سیلون میں کیا تو اس نے پچھلی مرتبہ سے زیادہ رقم طلب کی جس پر میں نے کہا کہ تمہاری تو کسی پروڈکٹ پر قیمت نہیں بڑھی تو اس نے جواب دیا کہ صاحب آپ بھی سچ ہی کہتے ہیں لیکن جو آپ کھاتے ہیں وہی تو ہم بھی کھاتے ہیں۔ میں یہ سن کر جیسے سن ہوگیا اس لئے کہ میرے پاس اس کی اتنی گہری بات کو ناپنے کا کوئی بھی آلہ نہیں تھا۔