بعض حضرات اپنے ذاتی بغض وعناد اور عصبیت کی وجہ سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے مجھے ہدفِ تنقید بناتے ہیں، اُن کی اہمیت اس وقت تک ہے جب وہ اینکر بن کر اسٹوڈیوز یا کالم نگار بن کر کسی بڑے اخبارکے ادارتی صفحے پر رونق افروز ہوتے ہیں، انہیں اپنے بارے میں انتہائی عُجب، تعلّی اور خوش فہمی ہوتی ہے، اُن کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ دانشِ وفراست کی ہر بات اُن سے شروع ہوتی ہے اور اُن پر جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ بزعمِ خویش یہ نادرِ روزگار شخصیت ٹی وی اسٹوڈیوز اور ایڈیٹوریل پیج سے باہر نکل آئیں تو قدر وقیمت کا پتا چل جائے گا۔ وہ دوسروں کی توہین اور تحقیر میں اپنی بڑائی سمجھتے ہیں، یہ مسئلہ نفسیاتی اور تربیت کا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ’’سیدنا عمر نے ممبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا: اے لوگو! عاجزی اختیار کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللہ کے لیے عاجزی اختیار کی، اللہ اُسے سربلند فرمائے گا، وہ اپنے آپ کو اپنے دل میں چھوٹا سمجھے گا، لیکن وہ لوگوں کی نظر میں عظیم ہوگا اور جس نے تکبر کیا، اللہ اُسے پست کردے گا، پس وہ لوگوں کی نظر میں حقیر ہوگا، جبکہ وہ دل میں اپنے آپ کو بڑا سمجھے گا، وہ کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ بے توقیر ہوگا، (شعب الایمان)‘‘۔
ایک صاحب لکھتے ہیں: چیئرمین متنازع ہیں، اُن سے سوال ہے کہ اُن سمیت پاکستان میں کون ایسا شخص ہے جس سے کسی کو اختلاف نہ ہو، لیکن میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں: پاکستان میں دینی مدارس وجامعات کی پانچ ملک گیر تنظیمات کے الائنس ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کا میں سیکرٹری جنرل یعنی امینِ عام ہوں، تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کا صدر ہوں۔ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان میں تمام مکاتبِ فکر کے جیّد علماء موجود ہیں، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری (ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان)، مولانا یاسین ظفر (ناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان)، علامہ افتخار حسین نقوی (رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان)، مفتی محمد ابراہیم قادری (آپ دو مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رُکن رہ چکے ہیں اور اُس وقت کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے ٹی وی پر اُن کی علمی فضیلت کا اعتراف کیا)، شاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد اور دیگر ممتازعلماء شامل ہیں۔ حال ہی میں مکۂ مکرمہ میں رابطہ عالَمِ اسلامی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان سے آئے ہوئے ممتاز علماء نے ایک مجلس میں مجھ سے کہا: ’’ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، ہمیں آپ کے فیصلوں پر اعتماد ہے، حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے علماء نے کہا: ہم رمضان المبارک اور عید الفطر آپ کے اعلان کے مطابق کرتے ہیں‘‘۔ نیز پورا صوبۂ پنجاب، صوبۂ سندھ، صوبۂ بلوچستان، صوبۂ خیبر پختون خوا کا بڑا حصہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان کے فیصلوں پر عمل کرتا ہے، یہ روشن حقیقت دیدۂ کور کو نظر نہیں آتی۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت ہمارے فیصلوں کی پشت پر ہے، قومی ودینی اتفاق کا اس سے کوئی بڑا مظہر ہوتو بتائیں۔
نیز فیصلہ پوری مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے اتفاقِ رائے سے ہوتا ہے، چیئرمین یا کسی شخصِ واحد کا نہیں ہوتا، پوری کمیٹی اس کی مؤیّد اور کسٹوڈین ہے۔ آپ اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر یا اخبارات کے کالموں میں اپنی مرضی سے جو مفروضے چاہیں قائم کریں، فلسفے تراشیں، زمینی حقیقت یہی ہے۔
ہمارے ان لبرل عناصر کی ایک نفسیاتی بیماری یہ ہے کہ خود کو علم کے میدان میں شیخ الکل اور علماء کو علم سے عاری سمجھتے ہیں اور یہ کہ جدید سائنسی دنیا سے علماء نابلد ہیں یا اُسے اہمیت نہیں دیتے، وہ اپنا مَبلغِ علم تو بتائیں کہ اُن کے پاس کون سی ایسی ڈگری ہے جس تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ علمی اور فکری خیانت اور ریٹنگ کے مرض کی نشاندہی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک فرد کو قومی ادارے کے مقابل لاکر کھڑا کردیتے ہیں اور بناوٹی انداز میں حب الوطنی کا راگ الاپتے ہیں۔
ایک قابلِ احترام بزرگ نے لکھا: نمازوں کے نقشے کسی وفاق المدارس نے بنائے ہیں، اُن کی خدمت میں گزارش ہے: نمازوں کے نقشے آج کی بات نہیں ہے، یہ سوسال سے چلے آرہے ہیں اور علماء ہی نے ترتیب دیے تھے، ہمارے اداروں میں علم التوقیت کے کورس آج بھی پڑھائے جاتے ہیں اور ماضی میں بھی تھے۔ جامعۃ الرشید میں شعبۂ فلکیات موجود ہے اور فیضانِ مدینہ میں بھی توقیت کا شعبہ کام کر رہا ہے۔ ایک صاحبِ علم اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ مولانا شبیر احمد کاکا خیل دیوبندی مکتبِ فکر کی بڑی بڑی جامعات میں فلکیات کے کورسز کراتے رہے ہیں۔ اہلسنت کے پاکستان بھر کے مدارس میں ہمارے ایک فاضل ماہرِ توقیت علامہ محمد عرفان رضوی سال بھر کورسز کراتے رہتے ہیں اور ماہرین نے اُن کی طرزِ تدریس اور شعبے میں علمی ثقاہت کو سراہا ہے، ہمارے اداروں کے ماہرین نئی مساجد کے لیے سَمتِ قبلہ کا بھی تعیُّن کرتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے ایک استاذِ حدیث علامہ محمد موسیٰ روحانی بازی کی قدیم وجدید فلکیات پر کتاب موجود ہے۔
ایک صاحب نے لکھا: سائنس کی معلومات قطعی ہیں اور شہادت ظنی، یہ دعویٰ جزوی طور پر درست ہوسکتا ہے، سو فی صد نہیں، ورنہ وہ اعلیٰ عدالتیں جو شہادات کی بنیاد پر سزائے موت نافذ کرتی ہیں، مطعون قرار پائیں گی کہ محض ظنی بنیاد پر کسی کی جان لے لی گئی۔ ہمارے ہاں چند برس پہلے لبرل میڈیا پر بڑا شور مچا تھا کہ ڈی این اے کو ثبوتِ جرم کے لیے قطعی حجت کیوں نہیں مانا جاتا، تو میں نے امریکا اور جرمنی کی عدالتوں کے شواہد پیش کیے تھے کہ انہوں نے ڈی این اے کو قطعی ثبوت ماننے سے انکار کردیا اور کہا: اگر تینتالیس بلین ٹریلین کے مقابلے میں ایک کے تناسب سے بھی شبہ پیدا ہوجائے تو سزائے موت جاری نہیں کی جائے گی، اسی حقیقت کو دانشِ نبوت نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک جملے میں بیان کردیا تھا: ’’حدود کو شبہات سے ساقط کردو، (حلیۃ الاولیاء)‘‘۔
سائنسی اعتبار سے چاند کے بارے میں چند امور قطعی ہیں: (1) سورج اور چاند کی حرکت، دونوں کا طلوع وغروب، یہ ’’اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان‘‘ سے بھی ثابت ہے۔ یہ ماہرینِ فلکیات کا صدیوں کا مشاہدہ ہے اور انہی مشاہدات میں تطبیق کر کے کلیات ترتیب دیے جاتے ہیں، مسلمان ماہرینِ فلکیات نے، ماہرینِ ریاضی وفزکس نے ان علوم میں کمال پیدا کر کے ’’اُسطرلاب‘‘ نامی آلہ ایجاد کیا تھا، جس سے سورج اور چاند کی چال، اُن کے طلوع وغروب کے اوقات اور نمازوںکے اوقات معلوم کیے جاتے تھے۔ قدیم وجدید فلکیات کی نصابی کتب میں ان کا تذکرہ ملتا ہے، مثلاً: نئے چاند کا بننا، چاند کا بڑھنا، پورے چاند کا بننا، چاند کا گھٹنا، چاند کا نظر نہ آنا، سورج گرہن، چاند گرہن اور طلوع وغروب وغیرہ۔ آج کل اُسطرلاب کی جگہ سوفٹ ویرز اور موبائل اپلیکیشنز نے لے لی ہے، چاند کے حوالے سے مندرجہ بالا امور قطعی ہیں۔
لیکن نیا چاند کب قابلِ رویت ہوتا ہے، فلکیات کی تمام قدیم وجدید نصابی کتابوں میں یہ بحث نہیں ہے، جدید دور میں بھی ماہرینِ فلکیات چاند کی رویت کے بارے میں (خاص طور پر جب کہ امکانات ففٹی ففٹی ہوں) قطعی معلومات دینے سے قاصر ہیں۔ آج بھی اس کے بارے میں کم از کم بیس سے زائد معیارات مختلف ماہرین نے بیان کیے ہیں، کسی ایک معیار کو تمام ماہرین کے نزدیک مکمل طور پر متفق علیہ یا مُجْمَعْ عَلَیہ قرار نہیں دیا جاسکتا، انہوں نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں آراء قائم کی ہیں۔ اسی لیے رؤیتِ بصری کی اہمیت کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماہرِ فلکیات ڈاکٹر شاہد قریشی نے ایک چینل پرکہا: ’’ہم سائنسی بنیادوں پر چاند کی رؤیت کا کوئی قطعی کیلنڈر نہیں بنا سکتے، ہم امکانِ رؤیت کی نشاندہی کرسکتے ہیں، حتمی بات نہیں کرسکتے‘‘۔
جہاں تک ملائیشیا، ترکی یا اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے رمضان اور عیدین کے بارے میں پیشگی کیلنڈر کا تعلق ہے، اُس کا مدار رؤیت پر نہیں ہے، اس لیے وہ پوری امت کے علماء کے درمیان متفق علیہ نہیں ہے، اسی بنا پر اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا تقسیم ہوئی اور اس کے بطن سے اسلامک کونسل آف نارتھ امریکا وجود میں آئی۔ جو علماء رویتِ بصری پر اپنے فیصلوں کا مدار رکھتے ہیں، وہ برطانیہ اور یورپ میں ہوں یا امریکا میں، وہ ان کیلنڈروں پر عمل نہیں کرتے، بلکہ حقیقی رؤیت پر مبنی فیصلے کرتے ہیں۔ ہمارے کالم نگار بڑے عالم فاضل سہی، لیکن برصغیر کے تمام ممالک اور بعض دیگر مسلم ممالک (جن میں مراکش اور عمّان شامل ہیں) میں اس طرح کے کیلنڈر قابلِ عمل اور قابلِ نفاذ نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں انتہائی محدود تعداد میں کچھ لوگ علامہ غامدی صاحب کی فکر کے حامل ہیں کہ حدیث میں رویت کو علم کے معنی میں لیا جائے اور اگر سائنسی طور پر معلوم ہوجائے کہ چاند غروبِ آفتاب کے بعد مطلع پر موجود تھا، خواہ چند منٹ ہی سہی اور چاہے کسی بھی حالت میں قابلِ رویت نہ ہو، اُسے موجود مان کر رمضان المبارک اور عید کا آغاز کردیا جائے۔ رؤیت ِ ہلال کے نظام پر بات کرنے والے لبرلز اسی نظریے کے حامی ہیں، انہیں روزہ اور عبادات سے چنداں غرض نہیں ہوتی، بس اس امر میں دلچسپی ہوتی ہے کہ ایک قومی تہوار کے طور پر عید ایک دن ہوجائے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رمضان اور عیدالفطر کا آغاز قومی تہوار نہیں ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ عبادات ہیں اور عباداتِ الٰہیہ شرعی شرائط کے مطابق ادا کی جاتی ہیں، خواہشات یا نت نئے فارمولوں کے تحت یہ کام نہیں ہوسکتا، ورنہ کل کلاں ایسے متجدّدین بھی آئیں گے جو کہیں گے: شدید گرمی میں روزہ چھوڑ دیا جائے اور فدیے پر اکتفا کی جائے، اس سے غریبوں کا بھلا ہوگا یا روزے کے دورانیے کو کم کردیا جائے، عقلِ عیّار تو یہی کچھ سکھاتی ہے، لیکن الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! مسلمانوں میں اپنے دین ومذہب کے حوالے سے اتنی پستی ابھی نہیں آئی اور مستقبلِ قریب میں بھی اس کے آثار نہیں ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
تکرار کے ساتھ ایک طنز کیا جاتا ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور یہ مذہبی لوگ ابھی تک چاند کے نظر آنے یا نہ آنے پر بحث میں الجھے ہوئے ہیں، اس سے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ساری جدید سائنسی، فنی اور فلکیاتی ترقی کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہے: ’’مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان‘‘، اسے ختم کردیا جائے تو ہم اقوامِ عالم کو پیچھے چھوڑ کر چاند اور دیگر سیاروں سے بھی آگے نکل جائیںگے، بس صرف اس رکاوٹ کے دور ہونے کی دیر ہے، کتنا آسان نسخہ ہے سائنسی ترقی کا اور کتنی نادان ہے یہ قوم! یہ معرکہ تو بہت پہلے سَر ہوجانا چاہیے تھا، غالب نے کہا تھا:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ہم تو 1950 کے عشرے سے جنتریاں دیکھتے چلے آرہے ہیں، جن میں قمری، شمسی اور بکرمی تقویم کی تاریخیں لکھی ہوتی تھیں، جنابِ فواد چودھری بڑے عظیم ہیں کہ وہ آج قمری کیلنڈر ایجاد کرنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ میری حکومتِ پاکستان کو تجویز ہے کہ اُن کا نام طبیعیات کے نوبیل پرائز کے لیے سویڈن بھیجا جائے، نیز اخبارات سے معلوم ہوا تھا کہ آئندہ دو سال میں چینی خلائی جہاز میں ایک پاکستانی خلاباز کو بھی چاند پر بھیجا جائے گا، اُس کے لیے بھی جنابِ فواد چودھری کی شخصیت نہایت موزوں رہے گی، بلکہ ان کو اگر مستقل وہیں بسادیا جائے تو زمین والوں کی خیر ہوگی۔
نوٹ(1): مسجد قاسم علی خان کا پاکستان کے نظامِ رؤیت ہلال سے اختلاف آج کی بات نہیں ہے، یہ قیامِ پاکستان سے چلا آرہا ہے، 1958 کے ایک اخبار کا تراشا اخبارات کو بھیجا جارہا ہے، اُس وقت بھی یہ اختلاف موجود تھا اور مسلسل رہا ہے، یہ آج کی یا صرف میرے دور کی بات نہیں ہے، اگر آج اس کی ذمے داری مجھ پر عائد کی جارہی ہے تو قیامِ پاکستان سے لے کر2000 تک اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوگی، اس کا ایک ہی حل ہے: جنابِ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو اس انحرافی روش سے روکا جائے۔
نوٹ (2): ڈائرکٹر جنرل محکمہ اوقاف پنجاب ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے اپنے کالم میں لکھا ہے: ’’چند سال پہلے ہم نے مفتی منیب الرحمن اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کو جہاز کے ذریعے بھیجا‘‘، اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتظام پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے تھا، یہ درست نہیں ہے۔ یہ میاں منیر صاحب کی طرف سے علماء کے ساتھ ایک حسنِ سلوک تھا اور سراسر نجی انتظام تھا، اگر یہ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے ہو تو بتایا جائے کہ اس کی ادائیگی کس نے کی، کس کو کی اور کہاں سے کی۔
نوٹ (3): مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں: ’’مفتی منیب الرحمن صاحب پورے سال لاپتا رہتے ہیں اور صرف دو مرتبہ نظر آتے ہیں‘‘۔ محترمہ حکومت میں نو وارد ہیں، انہیں اپنے حکومتی معاملات کا پتا نہیں ہے، میرے علمائے کرام کے ساتھ وزیرِ اعظم جناب عمران خان سے اہم امور پر دو باقاعدہ اجلاس ہوچکے ہیں، میں نیشنل ٹاسک فورس اور نیشنل کریکولم کے اجلاسوں میں شرکت کرچکا ہوں، اس کے علاوہ وفاقی وزیرِ تعلیم جناب شفقت محمود کے ساتھ دینی مدارس وجامعات کے موضوع پر ایک باقاعدہ اجلاس منعقد ہوچکا ہے اور اس کی متفقہ کارروائی کا تحریری ریکارڈ بھی موجود ہے، محترمہ کی ترجیحات ذرا مختلف ہیں، البتہ ہر بات میں ٹانگ اڑانا اور بے تکی باتیں کرنا نئے مشیروں اور وزیروں کا شیوہ ہے۔