پتھر دل انسا نوں کا بجٹ

300

رپورٹ:قاضی جاوید

حکومتی بجٹ خسارہ قرض 32 کھرب 60 ارب روپے تک پہنچ گیا،10ماہ میں بجٹ قرضوں میں 17.03 فیصد اضافہ، 917 ارب روپے 13 کروڑ روپے ہو گیا
بجٹ میں729ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز ،آئی ایم ایف ٹیکس آمدنی، جی ڈی پی کے 13.2 فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کررہاہے
بجٹ میں پیداواری شعبے کو اولین ترجیح دی جائے،میاں زاہد حسین، کاروباری سرگرمیوں کا دارومدار کاروبار کی لاگت اور عوام کی قوت خرید پر منحصر ہے ، احمد حسن مغل
سب سے زیادہ 634 ارب روپے ان لینڈ ریونیو، 95 ارب روپے ٹیکس لگایا جارہا ہے،بجٹ کی تیاری میںاسمال اور میڈیم انٹر پرائززسہولتیں دی جائیں،محمد فاروق شیخانی
رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر جی ایس ٹی ٹیکس کا نفاذ ظالمانہ فیصلہ ہے، سید عمران حسین، بجٹ میں مزدورں کی کم از کم تنخواہ 17 سے بڑھاکر 2 2 ہزار روپے کی جائے ،زبیر طفیل
آئی ایم ایف کاآمدہ بجٹ غریب کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا، اکانومی واچ ،پیداواری لاگت میں کمی کے لیے اقدامات کیے جائیں، صدر گرائنڈنگ ملز ایسوسی ایشن
آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے عوام اور تاجر برادری کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا،آئی ایم ایف شرائط عوام کیلئے کڑوی گولی نہیں زہریلا انجکشن ہے،شاہد رشید بٹ
ٹریکٹر انڈسٹر ی نے بجٹ تجاویز میں در آمد پر جی ایس ٹی کے خاتمے کا مطالبہ کردیا

حکومت دو دن بعد بجٹ پیش کر نے کی تیاری کر رہی ہے۔ گزشتہ 25برسوں سے ہر حکومت کا یہی اعلان رہا ہے کہ ان کاپیش کردہ بجٹ ملک اقتصادی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہے اور اب عوام فکر نہ کریں بس بہت جلد عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگے گی اور ملک معاشی طور پر ترقی کی بلندیوں تک پہنچ جائے گالیکن اُس حکومت کے خاتمہ کے بعد ہی ہر طرف معاشی تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا ،آئی ایم ایف کا شکنجہ ملکی معیشت پر اور مضبوط ہو جاتا ہے اور عوام مہنگائی بے روزگار اور غربت کے اندھروں میں ڈوب جاتے ہیں۔حکومت کا بجٹ خسارہ اور نئے ٹیکس کے نفاذ سے عوام ہانپنے لگیں گے ہیں لیکن حکومت بار بار اعلان کر رہی ہے کہ ایسا ہی ہو گا جس سے پتا دیا گیا ہے تو اس صورتحال کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پتھر دل انسا نوں کا بجٹ 11جون کو عوام نمائندوں کے سامنے پیش ہو گا اور عوام پر مزید گرانی ،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کا باعث بنے گاہمارے عوامی نمائندے ہمیشہ شور مچاتے ہیں کہ عوام پر ظلم نہیں ہونے دیں گے ،دیکھنا یہ ہے کہ وہ 11جون کو آئی ایم ایف کا بنایا ہو ا پتھر دل انسانوں کا بجٹ پیش کر نے کے موقع پر عوام کی ہمدردر میں کتنا آسمان وزمین سر پر اُٹھاتے ہیں۔ برسوں سے بجٹ دیکھنے اور پڑھنے کا اتفاق ہو ا اور ہر بار بجٹ کی آمد سے قبل مہنگائی آمد بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ بجٹ سے ایک ماہ قبل ہی ملک بھر کے معاشی تجزیہ نگارو، تاجروںاور صنعتکاروں نے یہ شور مچا رکھا ہے کہ مہنگائی کا ایک بڑا طوفان آنے والا ہے جس کوحکومت حسب روایت معمولی تکلیف بتا رہی ہے لیکن اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں 2019-2020ء کا بجٹ عوامی غربت میں بے تحاشہ اضافہ کا باعث بنے گا
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ ترین اعداد و شمار میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جولائی سے اپریل 2019 کے درمیان حکومت کے بجٹ قرضوں میں 17.03 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 917 ارب روپے 13 کروڑ روپے تک پہنچ گئے جو گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 786 ارب 67 کروڑ روپے تھے۔بجٹ سپورٹ کے لیے حکومتی قرضوں میں کچھ مہینوں کے لیے اضافہ دیکھا گیا اور حالیہ اعداد و شمار اس رجحان کی مزید حمایت کرتے ہیں۔اہم صنعتی شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے حاصل کیا گیا کل قرض اپریل 2019 تک 32 کھرب 60 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے اور اس میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 14 کھرب 90 ارب روپے کے مقابلے میں 118.6 فیصد تک اضافہ ہوا۔علاوہ ازیں اس عرصے کے دوران بینکوں کے لیے کل ادائیگیوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا اور یہ 23 کھرب 50 ارب روپے رہی جو گزشتہ برس کے مقابلے کے 708 ارب روپے کے مقابلے میں 231 فیصد زیادہ تھی۔ایک ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 196 فیصد تک اضافہ اسی طرح نجی شعبے کے قرضے بھی اپریل 2019 کے درمیان 597 ارب 83 کروڑ روپے رہے، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 458 ارب 28 کروڑ روپے تھی، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سالانہ بنیاد پر 30.45 فیصد اضافہ ہوا۔حکومت کے بجٹ میں729ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ آئی ایم ایف ٹیکس آمدنی، جی ڈی پی کے 13.2 فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کررہاہے لیکن حکومت نے 12.7 فیصد تک یقین دہانی کرائی ہے۔ بجٹ میں729ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ برآمدی و مینوفیکچرنگ شعبہ کین لیے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔سب سے زیادہ 634 ارب روپے ان لینڈ ریونیو، 95 ارب روپے کسٹمز ڈیوٹی، انکم ٹیکس کی مد میں 334ارب، سیلز ٹیکس کی مد میں 150 ارب اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 150 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔وفدکو بجلی کے نرخ میں اضافہ،روپے کی قدر، قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ سے متعلق شرائط پر پیشرفت سے آگاہ کیا جائے گا۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نئے پروگرام کے لیے پیر سے باضابطہ مذاکرات شروع ہوں گے۔ عالمی ادارے کے مشن ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ و وسطی ایشیا ارنسٹو رمیریز ریگو کی سربراہی میں جائزہ مشن 29 اپریل کو10 روزہ دورے پریہاں پہنچے گا۔وزیراعظم کے ساتھ اس کی ملاقات متوقع ہے،وہ مختلف اداروں کا دورہ کرے گا جبکہ آئندہ وفاقی بجٹ کے لیے تجاویزپر تبادلہ خیال ہوگا۔
پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اگر آمدہ بجٹ میں بھی معیشت کا رخ پیداواری شعبے کی طرف نہ موڑا گیا تو ملک کبھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو گا نہ اسکا کوئی مستقبل رہے گا۔بجٹ میں پیداواری شعبہ کو پہلی ترجیح دینے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدات محاصل اور روزگارجیسے مسائل حل کئے جا سکیں۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت سرمائے کا رخ غیر پیداواری شعبوں کی طرف ہے کیونکہ ان میں منافع زیادہ اور مشکلات کم ہیں۔اس رجحان سے محاصل اور روزگاربڑھانے میں کوئی خاص مدد نہیں مل رہی ہے اور نہ ہی برآمدات بڑھ رہی ہیں۔معیشت میں خدمات، سٹے بازی اور ٹریڈنگ کوغیر ضروری اہمیت دینے سے صنعتکاری ماند پڑ گئی ہے۔جب تک پالیسیوں میں اصلاحات کے ذریعے صنعتکاری کو ملک کا سب سے زیادہ منافع بخش شعبہ نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک محاصل، روزگار اور برآمدات کی صورتحال تشویشناک ہی رہے گی۔انھوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت کے غلط رخ کی وجہ سے صنعتکاروں کی بڑی تعداد نے کارخانے بند کر کے تجارت یا سٹے بازی شروع کر دی ہے ۔اسی وجہ سے کئی ممالک کو اعتراض ہے کہ تجارتی معاہدوں کے باوجود پاکستانی سرمایہ کار انکے ملکوں میں صنعتیں لگانے کے بجائے صرف ٹریڈنگ میں دلچسپی لیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے سے بہتر نتائج حاصل ہوئے ہیں تا ہم ریونیو میں اسکی وجہ سے 400ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ صنعتی شعبہ کے لئے کاروباری لاگت مسلسل بڑھ رہی ہے جسے کم نہ کیا گیا تو کاروبار اور پیداوار ناممکن ہو جائے گی جس کے بعدموقع کی منتظر ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک پر دھاوا بول دینگی۔توانائی، ٹیکسوں، ڈیوٹیوں اور دیگر معاملات میں صنعتی شعبہ کو رعایت دی جائے اور درآمد ہونے والے خام مال پر ڈیوٹی کم کی جائے۔ توانائی کی قیمتوں کو متوازن رکھنے کیلئے 200ارب روپے کی بجلی چوری اور مزید دو سو ارب روپے کے لائن لا سز کو ختم کیا جائے ۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے منافع کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کاروں کو منافع بخش رکھنے کی فکر بھی کی جائے کیونکہ انکا جینا مرنا ملک کے ساتھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ بزنس شروع کرنے کی سہولتیں، فیکٹری کی تعمیر کیلئے اجازت نامے لینا، بجلی، گیس اور پانی کے کنکشنز، فیکٹری اور بلڈنگ کو رجسٹرڈ کرانا، بینکوں سے قرضہ لینا، سرمایہ کار کو تحفظ فراہم کرنا،ٹیکسوں کی ادائیگی، سرحدوں کے آر پار تجارتی لین دین کی سہولتیں، اسمگلنگ کا خاتمہ، حکومتی اور نجی اداروں کے معاہدوں پر عملدرآمد اور تنازع کی صورت میں قانونی طریقوں سے مسائل حل کرنے سمیت تمام معاملات میں آسانی پیدا کی جائے تاکہ ملک ترقی کر سکے۔
وفاقی ایوانہائے تجارت و صنعت پاکستان (ایف پی سی سی آئی)کے سابق صدر زبیر طفیل نے کہا ہے کہ غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری سے لوگ تنگ آچکے ہیں، ملک کی معیشت کی حالت اس وقت بہتر نہیں ہے،ملک مسائل سے گھرا ہوا ہے ،افراط زر بڑھ رہا ہے، عام آدمی کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں مزدورں کی کم از کم تنخواہ 17 سے بڑھاکر 2 2 ہزار روپے کی جائے تاکہ غریب عوام کو کچھ ریلیف مل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورتحال مزید کچھ عرصہ اور جاری رہی تو غربت،مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آئے لوگ پرتشدد ہنگامہ آرائی پر بھی اتر آسکتے ہیں۔یہ بات انہوں نے گزشتہ روز مقام جناح یونیورسٹی کراچی(ماجو) کے فنانس اینڈ اکنامکس کے شعبہ کے زیر اہتمام پری بجٹ سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔سیمینار سے سارک چیمبر آف کامرس کے لائف ممبر انجینئر ایم اے جبار، ماجو کی بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ سوشل سائینسز کے ایسوسی ایٹ ڈین ڈاکٹر شجاعت مبارک اورسیمینار کے آرگنائزر ڈاکٹررضوان الحق نے بھی خطاب کیا جبکہ ممتاز ٹی وی اینکر اور ماجو کے استاد علی ناصر نے سیمینار کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔آئندہ مالی سال کے لیے اپنی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے زبیر طفیل نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈھائی لاکھ سے زائد افراد بے روزگاری کا شکار ہیں اس لیے نئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ملک میں نئی انڈسٹری لگانے کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس ضمن میں سرمایہ کاروں کو رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے بجائے انڈسٹری لگانے کی ترغیب دی جائے، شرح سود کم کیا جائے،پاکستانی کرنسی کی قیمت کم کرنے سے افراط زر کو کم کرنے اور برآمدات میں اضافہ پر توجہ دی جائے، صنعتی پیداوار میں اضافہ کے لیے انڈسٹری کے لیے بجلی کے نرخ کم کیے جائیں،سیلز ٹیکس کی شرح کم کی جائے،سی پیک کے منصوبے سے فوائد حاصل کرنے کے لیے ملک میں ہنر مند افرادی قوت میں اضافہ کے اقدامات کیے جائیں کی ضرورت ہے۔
پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ ملک میں تبدیلی کے نام پر عوام کو بہت بڑا دھوکہ دیا گیا ہے۔تبدیلی کی آڑ میں تباہی کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔حکومت اور آئی ایم ایف مل کربھوک سے بلکتے عوام کا شکار کر رہے ہیں۔آئی ایم ایف کا آمدہ بجٹ عوام کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔عوام اب ماضی کی حکومتوں کی ناکامیوں ، کرپشن کے الزامات اور سیاسی انتقام سے سے تنگ آ چکے ہیں اورریلیف چاہتے ہیں۔اشیائے خورد و نوش،ادویات اور پٹرول کی قیمتوںاور بجلی وگیس کے بلوںمیں ہوشربا اضافے کی وجہ سے عوام موت کی تمنا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغلنے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ملک و قوم کی تقدیربدلنے والوں نے عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی اختیار کر کے عوام اور معیشت کوگہری دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔ہر وزیر و مشیرروزانہ رٹے رٹائے جملے دہرا رہا ہے جبکہ معاشیات، سماجیات اور بین الاقوامی تعلقات سمیت پر شعبہ زوال کا شکار ہے۔گزشتہ نو ماہ میں عوام کی زندگی مزید مشکل کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔ غریبوں کا کوئی پرسان حال ہے بڑھتی قیمتوں کی کوئی روک تھام ہے نہ بگڑتی ہوئی معیشت کا کوئی نظام ہے۔حکومت برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں خاطر خواہ کمی میں ناکام ہو گئی ہے۔ ڈھائی کروڑ بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں، کوئی نیا ہسپتال تعمیر نہیں ہوا۔ پولیس کا پرانانظام، اقربا پروری اور لوٹ مار جاری ہے۔ باہر سے کوئی پاکستان آ کر ملازمت نہیں کر رہا بلکہ لوگ بھاگ رہے ہیں ۔ سبز پاسپورٹ پر مزید پابندیاں عائد ہو گئی ہیں، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر صرف بیانات میں موجود ہیں جبکہ پشاور کی بی آر ٹی تماشہ بنی ہوئی ہے ۔حکومت کو توانائی کی قیمت،اشیائے خورد و نوش و ادویات کی قیمتوں، کابینہ کے حجم، انتشار، بد انتظامی اور بد امنی میں اضافہ کا کریڈٹ جاتا ہے۔شرح نمو، پیداوار،ٹیکسوں ،روزگار اور بجلی و گیس کی سپلائی اورروپے کی قدر میں کمی حکومت کی نا اہلی کا ثبوت ہیں۔عوام بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں اور بے چینی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
صدر گرائنڈنگ ملز ایسوسی ایشن پاکستان چودھری افتخار بشیر نے مطالبہ کیا ہے کہ نئے مالی سال 2019-20 ء کے بجٹ میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسز کی شرح میں کمی کرکے موثر ٹیکس پالیسی کا اعلان کیا جائے ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے گرائنڈنگ ملز ایسوسی ایشن کے تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ مربوط حکمت عملی اور تاجروں کی تجاویز کے مطابق موثر ٹیکس کا نفاذ کرکے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جا نا چاہئے ،اس اقدام سے بجٹ خسارہ میں کمی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی قرضوں پر انحصار میں کمی آئے گی۔افتخار بشیر چودھری نے کہا کہ ٹیکسوں اور ان کی شرح میں مسلسل اضافہ سے کاروباری و تجارتی طبقہ متاثر ہوا ہے جبکہ توانائی سمیت بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے ، پاکستانی اشیا مہنگی ہونے کے باعث بیرون ملک عالمی منڈیوں میں پاکستانی اشیاء کی مانگ میں کمی سے برآمدات کمی کا شکار ہیں ،اس لیے صنعتی شعبہ میں ٹیکسز کی شرح میں کمی اور پیداواری لاگت میں کمی کے لیے اقدامات کیے جا نے چاہئیں ۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر احمد حسن مغل، سینئر نائب صدر رافعت فرید اور نائب صدر افتخار انور سیٹھی نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کیلئے معاملات طے کر لئے ہیں تاہم آئی ایم ایف نے قرضہ دینے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں ان پر عمل درآمد سے عوام اور تاجر برادری کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ انہوںنے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط میں حکومت نے بجلی و گیس کے ریٹ مزید بڑھانے اور شرح سود میں اضافہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے جبکہ سبسڈیز کو بھی کم کیا جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ ان تمام اقدامات سے کاروبار کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو گا جبکہ عوام کے لیے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا اور معیشت مزید سست روی کا شکار ہو گی ۔ انہوںنے کہا کہ کاروباری سرگرمیوں کا دارومدار کاروبار کی لاگت اور عوام کی قوت خرید پر منحصر ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد سے پیداواری لاگت کافی بڑھ جائے گی جس سے ہماری برآمدات مزیدمتاثر ہوں گی جبکہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوت خرید کم ہونے سے کاروباری سرگرمیاں بھی بہت متاثر ہوں گی۔ احمد حسن مغل نے کہا کہ پاکستان نے پچھلے ساٹھ سالوں میں آئی ایم ایف سے 21مرتبہ قرضہ حاصل کیا ہے جن کی مجموعی رقم 27ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے لیکن معاشی طور پر مستحکم ہونے کی بجائے ملک مزید قرضوں کی دلدل میں پھنستا چلا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر اب تک قرضوں اور واجبات کا بوجھ بڑھ کر 33کھرب روپے سے زائد ہو گیا ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ انہوںنے کہا صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے پاکستان کو مزید قرضہ لینا پڑتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرضوں کے حصول نے پاکستان کو ایک مضبوط معیشت بنانے کی بجائے اس کو مزید کمزور کیا ہے۔آئی سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے دبائو میں آ کر موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے سے گریز کرے اورٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کیلئے کوششیں تیز کرے۔ انہوںنے مزید مطالبہ کیا کہ حکومت نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی جلد نجکاری کرے کیونکہ ان اداروں کو چلانے کیلئے حکومت کو سالانہ400سے 500ارب روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں جس سے ملک کا مالی خسارہ مزید بڑھتا ہے اور اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس لگائے جاتے ہیں
حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد فاروق شیخانی نے کہا ہے کہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں ملکی معیشت اور زیادہ زرمبادلہ کمانے کے لیے اہم ہیں۔ لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتیں سال 2020-21 ء کا بجٹ بناتے وقت اِن سے وابستہ صنعتکاروں کو زیادہ سے زیادہ مراعات اور سہولتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بجٹ بنائے اور اِس بارے میں اِن صنعتوں سے متعلق نمائندگان چیمبرز آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کو اعتماد میں لے تاکہ چھوٹے اور درمیانے کاروباری حضرات کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ بے خوف و خطر اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں اور ملک و ملت کی بھلائی کے لیے سرمایہ فراہم کرنے میں پیش پیش ہوں۔ اُنہیں مختلف پیچیدہ قوانین میں اُلجھا کر خوف زدہ کرنے کے بجائے ایف بی آر آسان اور سہل قواعد و ضوابط مرتب کرے اور سہولتیں فراہم کرے تاکہ صنعتکار اور بزنس کمیونٹی دلجمعی سے اپنا کاروبار جاری رکھ کر کاروبار کو وسعت دے کر قوم کے کام آئیں۔ اُنہوں نے ملک بھر کے چیمبرز آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے صدور سے درخواست کی کہ وہ اِس سلسلے میں ایک پلیٹ فارم پر اِکھٹے ہوں اور یکجہتی کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کر کے درپیش مسائل کو حل کرائیں۔ اسلام آباد اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن اسلام آباد کے فنانس سیکرٹری اور مرکزی رہنماء سید عمران حسین بخاری نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں جی ایس ٹی ٹیکس کے نفاذ کو ایک ظالمانہ فیصلہ قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ فیصلہ اگر نافذ ہوا تو یہ غیرقانونی ہوگا اور ملک میں ایمنسٹی ا سکیم لانے سے قبل کاروباری طبقے کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ اس کے بہتر نتائج مل سکیں پیر کو انہوں نے کہا کہ حکومت متوازن پالیسی اور حقائق پر مبنی فیصلوں کے ساتھ ٹیکس نافذ کرے اور ہرشہری جس پر قانون کے مطابق ٹیکس عائد ہوتا ہے وہ ٹیکس دینے کو تیار ہے لیکن رئیل اسٹیٹ کا شعبہ اس وقت نہیں بلکہ عرصے سے بدترین مندی کا شکار ہے اور جی ایس ٹی ٹیکس رئیل اسٹیٹ کے شعبے کے لیے مناسب نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے اس شعبے میں کاروباری سرگرمیاں ختم ہوجائیں گی انہوں نے کہا کہ ملک میں ایمنسٹی ا سکیم لانے سے قبل کاروباری طبقے کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ اس کے بہتر نتائج مل سکیں انہوںنے کہا کہ ٹیکس کے بغیر کوئی ملک اور حکومت نہیں چل سکتی لیکن یہ بھی دیکھنا حکومت کا فرض ہے کہ ٹیکس لگانے کے لیے حقائق کیا ہیں اور حقائق کے مطابق ٹیکس لگے تو ا س کے نتائج بھی ملک اور قوم کے لیے بہتر نکلتے ہیں۔
تاجر رہنما شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اگرملک و قوم کے مفاد میں ہے تو اسکی تفصیلات عام کیوں نہیں کی جا رہی ہیں۔یہ معاہدہ عوام کے لئے کڑوی گولی نہیں بلکہ زہریلی گولی ہے۔ڈالر کی آزادی سے مقامی کرنسی بے وقعت ہو کر ٹشو پیپر بن جائے گی اورملکی معیشت پاش پاش ہو جائے گی۔حکمرانوں کی کرپشن کی سزا عوام کب تک بھگتیں گے ۔حکومت بتائے کہ عوام کب تک نہ گھبرائیں۔شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ملکی معیشت میں بھونچال آ یا ہوا ہے عوام خوفزدہ اور کاروباری برادری مضطرب ہے جبکہ ملک مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب رہا ہے۔ روپے کی ریکارڈ پسپائی سے معیشت کا ہر شعبہ بری طرح متاثر ہو ا ہے جبکہ کروڑوں افراد خط غربت سے نیچے دھکیل دئیے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ معاہدے سے پاکستان کے مالیاتی استحکام کے بارے میں اچھا پیغام جائے گا مگر غریب تباہ ہو جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ عوام پر سات ہزار ارب کے ٹیکسوں کا بوجھ انکی کمر توڑ دے گا اور مہنگائی جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کررہی ہے مزید بڑھ جائے گی جبکہ بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں اور شرح سودمیں اضافہ اسکے علاوہ ہو گا جو قیامت کا منظر پیش کرے گا۔آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ تمام شعبوں پر یکساں لاگو ہو گا تاہم موجودہ حکومت اسکی اہل نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی ٹیکس مراعات ختم کرنے اسٹیٹ بنک کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے اورضرر رساںسرکاری اداروں کی فروخت کے دعوے کئے گئے ہیں جن پر کبھی عمل نہیں ہوا۔آئی ایم ایف کا قرضہ حکومت کا امتحان ہے جس میں ناکامی کا آپشن موجود نہیں ہے۔
ٹریکٹر انڈسٹری نے بجٹ تجاویز کے ضمن میں ری فنڈ ادائیگیوں کو کم کرنے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو تجویز پیش کی ہے کہ امپورٹ پر جنرل سیلز ٹیکس کو ختم کیا جائے جس کی وجہ سے ہر سال انڈسٹری کے ایک ارب 90 کروڑروپے حکومت پر واجب الادا ہوجاتے ہیں۔چیف ایگزیکٹو آفیسر الغازی ٹریکٹرز، محمد شاہد حسین نے تجویز میں کہا ہے کہ اس سے مقامی انڈسٹری پر مالی بوجھ میں کمی ہوگی۔ انڈسٹری کافی عرصے سے تجاویز دے رہی ہے کہ ٹریکٹروں کے سی کے ڈی حصوں کی درآمد ڈیوٹی کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ ٹریکٹر پرزہ جات ملک میں مقامی طور پر ٹریکٹروں کی تیاری کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ حکومت کو پہلے سیلز ٹیکس بلاواسطہ دینا اور پھر اگلے ہی ماہ ری فنڈ کے لیے رجوع کرنا معاملے کا حل نہیں ہے۔ اس وقت آئوٹ پٹ سیلز ٹیکس ٹریکٹروں کی سپلائی پر 5 فیصد ہے جبکہ مقامی، درآمدی پرزہ جات کی خریداری پر 17 فیصد اِن پُٹ ٹیکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس ری فنڈ کی ادائیگی تین روز میں ادا نہیں کی جاتی ہے اور اس کی ادائیگی میں کئی ماہ کی تاخیر کی جاتی ہے۔ اس وقت ایف بی آر کو ٹریکٹر انڈسٹری کو ری فنڈ واجبات کی صور ت میں 5 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ اس طرح ٹریکٹر انڈسٹری کو شدید مالی دشواری اور مالی وسائل کی قلت کا سامنا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ٹریکٹر انڈسٹری کاشت کاروں کو ٹریکٹروں کی سپلائی کرکے اہم کردار ادا کررہی ہے اور انڈسٹری کی ترقی کے لیے مسلسل سپلائی کی فراہمی یقینی بنانا بھی انڈسٹری کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے سیلز ٹیکس ری فنڈ کی ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر سے ٹریکٹروں کی تیاری متاثر ہوسکتی ہے اور وینڈر انڈسٹری کو مسلسل ادائیگیاں دشوار ہو گئی ہیں۔ جی ایس ٹی کے خاتمے سے ملک کی انجینئرنگ صنعت کو فائدہ پہنچے گا اور کاشت کاروں کو بھی کم لاگت کی فنانسنگ سہولت میسر آئے گی، اس طرح مجموعی طور پر پیداوار میں اضافہ ہوگا اور ملک کی زرعی پیداوار بڑھے گی جس سے معیشت مستحکم اور ٹیکس میں اضافہ ہوگا۔
آل پاکستان بزنس فورم کے صدر نے حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں500ارب روپے کے نئے ٹیکسوںکے نفاذ کے منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان نئے مجوزہ ٹیکسوں کی مخالفت کی ہے۔ ۔آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی کا کہنا ہے کہ عوام اور تاجر برادری حکومت کے کسی ایسے فیصلے کو قبول نہیں کرے گی اور نئے ٹیکسوںکے نفاذ سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوگا بلکہ کرپشن کی راہیں بھی ہموار ہوں گی ۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ایف بی آر میں اصلاحات کا عمل شروع کرنا چاہیئے جس کے نتیجے میں حکومتی آمدنی کھربوں میں پہنچ سکتی ہے ۔ابراہیم قریشی کا کہنا تھاکہ ٹیکس اتھارٹیز کو خودمختاری دینے والے ممالک نے اپنی وصولیوں میں 40تا120 فیصد تک اضافہ کیا ہے اور پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے۔اس وقت ایک اندازے کے مطابق ملک میں دس لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں جبکہ 1990میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد16لاکھ تھی اور یہ رجحان لوگوں کی ٹیکس نظام پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے ۔آل پاکستا ن بزنس فورم کے صدر کا کہنا تھا کہ پانچ لاکھ اور زائد ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد35ہزار کے قریب ہے اور آمدن کے حصول کیلئے حکومت کی توجہ کا مرکز بھی یہی ٹیکس گذار ہیں،ان افراد کو آڈٹ،نوٹسز اور چھاپوں کے ذریعے ہراساں کرکے دیگرٹیکس دینے کے خواہشمند افراد کو نہایت ہی منفی پیغام دیا جارہا ہے ۔ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں میں کاروبار کرنے والے صنعتکاروں کو 95بار ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ دستاویزات کی تیاری میں انہیں سالانہ598گھنٹے صرف کرنا پڑتے ہیں جبکہ اس کے برعکس سنگاپور میں صنعتکار سال میں محض6بار ٹیکس ادا کرتے ہیںاور ملائشیا میں صنعتکار سال میں14بار ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔