چیلنجز کے صحرا میں کھڑی تنہا حکومت

190

عید تو گزر گئی اور سیاست کے کینوس پر ’’عید کے بعد کیا ہوگا‘‘ کا سوال اپنے پیچھے چھوڑ گئی۔ ایک رائے ہے کہ عید کے بعد زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں رہے گی اور حکومت کی نائو یونہی حالات کے گرداب میں ہچکولے کھاتے کھاتے اپنی مدت گزار لے گی۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو لگتا ہے کہ جی کا جانا ٹھیر گیا صبح گیا یا شام گیا۔ حکومت خود حالات کے بوجھ تلے دب رہی ہے احتجاجی تحریک محض ایک دھکا ثابت ہوگی۔ ہر دوصورتوں میں اپوزیشن خالی ہاتھ ہی نظر آتی ہے کیونکہ عید کے بعد کیا ہوگا؟ کے سوال کا تعلق صرف حکومت کے مستقبل سے نہیں بلکہ مقدمات کی دلدل میں کھڑی اپوزیشن سے بھی ہے جس کی قیادت یا تو جیل کے اندر ہے یا پھر جیل کی دہلیز پر۔ مریم نواز کے بعد بلاول زرداری قومی اور سفارتی معاملات پر جو موقف اپنائے ہوئے ہیں وہ بتارہا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنی عددی قوت کے باوجود وہ تحریک انصاف کی حکومت کا خلا پر کرنے سے قاصر ہیں اور اسی لیے وہ اپنے ترکش کے آخری تیر پھینک رہے ہیں۔ جونیجو حکومت کے زمانے میں خان عبدالولی خان کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ہماری جنگ ریت کی بوری سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے چھپے ہوئے انسان سے ہے۔ بلاول اور مریم دہشت گردی سے پی ٹی ایم تک جو بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں وہ ریت کی بوری کے پیچھے کا معاملہ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس مفاہمت اور واپسی کا آپشن یا تو محدود ہے یا فی الوقت سرے سے موجود ہی نہیں۔ ایسے میں عید کے تیسرے روز غم زدہ قمرالزمان کائرہ کا ایک جملہ سننے کو ملا کہ اپوزیشن حکومت کو گرانا اور دما دم مست قلندر نہیں کرنا چاہتی۔ کائرہ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر ہیں اور اپوزیشن کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت کے صوبائی سربراہ کے طور پر پنجاب میں احتجاجی لشکر کو منظم کرنا اور حکومت پر چوٹ لگانا انہی کی ذمے داری ہوگی مگر ان کے بیان میں مفاہمت کا انداز کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک اس وقت کئی قسم کے اور کئی سمتوں سے بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ بحرانوں کا ایک لق ودق صحرا ہے اور اس میں تنہا حکومت اپنی سمت اور راہ ِ منزل کی متلاشی ہے۔ ان میں سب سے سنگین بحران معاشی ہے جس نے ملک کے تمام بحرانوں کو نہ صرف حیاتِ نو بخشی ہے بلکہ حکومت کے اپنے پائوں بھی زمین پر لگنے نہیں دے رہا۔ چاروں صوبوں بشمول گلگت کے وزرائے اعلیٰ اور آزادکشمیر کے وزیر اعظم کے ساتھ قومی اقتصادی کونسل کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے تسلیم کیا کہ ملک کو غیر معمولی معاشی بحران کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم اگر اس بحران کی حقیقت کا اعتراف نہ بھی کرتے تب بھی معاشی کوچہ ٔ وبازار میں کسی خود سر وبدمست سانڈ کی طرح دوڑتا پھررہا ہے۔ عوام اس سانڈ کے پائوں تلے کچلے جا رہے ہیں۔ خاصی تگ ودو اور رد وکد کے بعد حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے مگر مسودے پر دستخط ہونا باقی ہیں۔ یہ معاہدہ کن شرائط پر ہوا تاحال اس کا علم نہیں۔ خود حکومت کہہ رہی ہے کہ مسودے پر دستخط ہونے تک معاہدے کی تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی۔ معاہدے کی تفصیل سامنے آئے بغیر اس بات کا بھی عوام کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ معاہدہ کس نوعیت کا ہے۔ آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ ’’مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے‘‘۔ کے انداز میں اپنے اثرات کی شکل میں پہلے ہی ایک جھلک دکھا رہا ہے۔ معاہدے کے بعد کیا ہوگا؟۔ اب سے پر زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ابھی سے آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ معاہدہ ایک ایسی ہڈی ہے جسے اگلا جا سکتا ہے نہ نکلا جا سکتا ہے۔
معاہدے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے بگڑے ہوئے تیور بتارہے تھے کہ اس بار معاشی غارت گر پاکستانی عوام کے ساتھ کیا سلوک کرنے جا رہے ہیں۔ بجٹ کی آمد آمد ہے اور بجٹ کے پردے کے پیچھے سے آئی ایم ایف کا عفریت برآمد ہونے کا خوف ہر طرف موجود ہے۔ اس پردے سے مہنگائی کا ایک قبیح صورت آدم خور جن برآمد ہونے کے خدشات پوری طرح موجود ہیں۔ احتسابی عمل پر اصرار اور اسے منطقی انجام تک بڑھانے کی روش پر قائم رہنے نے پارلیمانی اپوزیشن کو منقازیر پا کر رکھا ہے۔ ان میں کچھ جیل میں ہیں کچھ جلاوطن اور کئی ایک جیل کے پھاٹک سے چند قدم کی دوری پر ہیں۔ اس عالم میں اپوزیشن کی مخالفانہ چہچہاہٹ جسے حکومتی جماعت ’’چیخوں‘‘ کا نام دیتی چلی آرہی ہے فطری ہے۔ مریم نواز اور بلاول تہیہ طوفاں نہ کریں تو اور کیا
کریں کہ جن کے پاس کھونے کو باقی کچھ بھی نہیں۔ یہ جماعتیں وزیر ستان کے حالیہ بحران میں ریاست اور حکومت کے بجائے پی ٹی ایم کے ساتھ جا کھڑی ہوئی ہیں۔ پی ٹی ایم کا معاملہ ایک اُلجھی ہوئی ڈور ہے جو سلجھنے میں کچھ وقت لے گا مگر پی ٹی ایم اور سیکورٹی فورسز کے تنازعے میں سینڈوچ بنی ہوئی حکومت کو درپیش ایک اہم چیلنج ہے۔ اسی طرح چیرمین نیب کی آڈیو وڈیو لیکس کا معاملہ بھی حکومت کی راہ میں ایک مشکل ہے۔ اپوزیشن کی مشتعل جماعتیں اس معاملے کو پہلے حکومت اور نیب کے درمیان دراڑیں ڈالنے کے لیے استعمال کرنے لگی تھیں مگر حکومت چیرمین نیب کے ساتھ کھڑی ہوئی اور یوں ان کے درمیان غلط فہمی پیدا نہ جا سکی جس کے بعد اپوزیشن نے چیرمین نیب کے معاملے کو دوبارہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا مطالبہ دہرانا شروع کردیا ہے۔ حکومت نے عدالت عظمیٰ کے دو ججوں کے خلاف ریفرنس بھی دائر کر دیا ہے جن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں۔ یہ پنڈروہ باکس کھلنے کی ابتدا ہے اور اپوزیشن اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے کر احتجاج منظم کر سکتی ہے۔ بھارت میں مودی کی دھماکہ خیز واپسی بھی پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے۔مودی کی شکست سے بھی شاید کچھ حاصل ہونے والا نہ تھا مگر اس جیت نے کئی خدشات کو جنم دیا ہے۔یوں بحران حکومت کی راہ میں خورو جھاڑیوں کی طرح اُگتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سسٹم بہت کمزور بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس پر زیادہ دبائو آیا تو عمران خان خود اسے بٹھادیں گے۔ آگے کیا ہوگا؟ اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ حکومت اور اپوزیشن کو اس مرحلے اور مقام کو ٹالنے کی ہر ممکن طور پر تدابیر کرنی چاہیے۔