عہد حاضر کے چیلنج‘ اسلام اور مغرب

946

ہم جنس پرستی کے حامی جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ایک عجیب بات کہی ہے۔ انہوں نے کیا کہا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کرلیجیے۔ لکھتے ہیں۔
شرق و غرب میں اضطراب ہے۔ آج عالم انسانیت کن راستوں پر گامزن ہے؟ بی جے پی کی کامیابی نے طالب علمانہ اشتیاق کو مہمیز دے دی، ورنہ یہ سلسلہ واقعات کی محض ایک کڑی ہے۔ برطانیہ جیسی جمہوریت کی ماں، ان دنوں پراگندگیٔ فکر کا مرکز ہے۔ ترکی میں طیب اردوان کے پائوں اُکھڑ رہے ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں اضطراب کی اُٹھتی لہروں کی خبر ہم تک پہنچ نہیں رہی، یا پھر مصلحتوں نے زبان پر پہرہ بٹھا رکھا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ مذہب، جمہوریت، روشن خیالی، قدامت پرستی… کوئی اس وقت ابن آدم کا ہاتھ نہیں تھام رہا۔ کیا کسی کے پاس اُس کے غموں کا علاج نہیں؟۔
اس فضا میں یہ سوال اُٹھنا فطری ہے کہ عالم انسانیت کا سفر کس سمت میں ہے؟۔ بظاہر خیر کی کوئی خبر نہیں۔ جمہوریت، مذہب، عالمگیریت کسی کے پاس اس فساد کا کوئی حل نہیں، جو کم و بیش ہر دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ دانش کا سفر صرف واقعات کی تفہیم تک محدود ہے۔ کہیں افکارِ تازہ کی نمود نہیں۔ نہ مشرق میں نہ مغرب میں۔ کوئی یہ نہیں بتارہا کہ دنیا کو اس فساد سے کیسے محفوظ بنایا جاسکتا ہے؟۔
انیسویں صدی تو خیر تھی ہی ’’نظریات کی دنیا‘‘ (Age of Ideology) بیسویں صدی بھی اس اعتبار سے اتنے بانجھ پن کا شکار نہیں تھی۔ تب مسلم دنیا میں بھی فکر و نظر کے کئی چراغ روشن تھے، تاہم اس روشنی کا ہدف مسلم دنیا کے اندھیروں کو دور کرنا تھا۔ جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ سے لے کر مولانا مودودی اور روح اللہ خمینی تک، جو فکری کام سامنے آیا اس کا بنیادی تعلق مسلم دنیا یا اسلامی فکر کے احیا سے تھا۔ عالم انسانیت کو دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ (روزنامہ دنیا۔ 27 مئی 2019ء)
جیسا کہ سب جانتے ہیں موجودہ دنیا مغرب کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں سیاسی نظام ہے تو مغرب کا، معاشی نظام ہے تو مغرب کا، تعلیمی نظام ہے تو مغرب کا، عدالتی نظام ہے تو مغرب کا، قانونی نظام ہے تو مغرب کا، بین الاقوامی آرڈر ہے تو مغرب کا، ابلاغی نظام ہے تو مغرب کا، اقوام متحدہ ہے تو مغرب کی، بین الاقوامی قوانین ہیں تو مغرب کے۔ یہاں تک کہ مسلم دنیا کے تمام حکمران بھی مغرب کے ہیں۔ چناں چہ دنیائے جدید کا بحران بھی مغرب کا پیدا کردہ ہے۔ مگر خورشید کی ’’علمی سطح‘‘ کا یہ عالم ہے کہ بحران مغرب نے پیدا کیا ہے اور وہ اس کا حل اسلام اور مفکرین اسلام سے طلب کررہے ہیں۔ یہ نہ عقلی بات ہے، نہ علمی بات ہے، نہ منصفانہ بات ہے۔ مگر چوں کہ خورشید ندیم مغربی مفکرین کی طرح اسلامی مفکرین کو بھی ’’معمولی‘‘ اور ’’ناکام‘‘ باور کرانے کی شدید آرزو رکھتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اسلامی مفکرین اور مغربی مفکرین کو ایک صف میں کھڑ کردیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مغرب نے بحران پیدا کیا ہے تو وہ اپنے بحران کو دور کیوں نہیں کرتا؟ اس پر قابو کیوں نہیں پاتا؟ عہد حاضر کے چیلنجوں کا جواب کیوں نہیں دیتا؟۔
اِن سوالات کا ایک جواب یہ ہے کہ بیماری کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب انسان تسلیم کرلے کہ وہ بیمار ہے، مگر مغرب چوں کہ غالب ہے، اس لیے وہ خود کو بیمار ہی تسلیم نہیں کرتا۔ بلاشبہ مغرب میں بعض دانش ور ایسے بھی ہوئے ہیں اور اب بھی موجود ہیں جو تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب مر رہی ہے یا کم از کم مغرب بحران کا شکار ہے، مگر اس کے علاج کے جواب میں وہ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ مثلاً 20 ویں صدی کے سب سے بڑے مغربی مورخ آرنلڈ ٹوائن بی نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ مغربی تہذیب کو فنا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے مگر اس کی دو شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ مغرب اپنی تہذیب میں کسی نہ کسی قسم کی روحانیت داخل کرلے اور دوسرا یہ کہ وہ ٹیکنالوجی کے عشق سے جان چھڑائے۔ ٹوائن بی کی یہ باتیں اہم ہیں مگر مجرّد یا Abstract ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مادہ پرست جدید مغرب روحانیت کہاں سے لائے؟ کیا وہ اسلام قبول کرلے؟ یا عیسائیت کی روحانی اقدار سے دوبارہ خود کو منسلک کرلے؟ ٹوائن بی نے اس سلسلے میں کچھ نہیں فرمایا۔ ٹیکنالوجی کے عشق سے جان چھڑانے کا مشورہ بھی صائب اور عمدہ ہے مگر ٹیکنالوجی کے عشق میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا مغرب ٹیکنالوجی کے عشق سے کیوں کر آزاد ہوگا اس سوال کا جواب ٹوائن بی نے نہیں دیا۔ مغرب کے ایک اہم دانش ور ہیں ایلون ٹوفلر انہوں نے اپنی تصنیف Future Shock میں ثابت کیا ہے کہ مغرب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ٹرین انسان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور اس کا حادثے سے دوچار ہونا یقینی ہے مگر انہوں نے صاف کہا ہے کہ یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس بحران کو حل کرے گی۔ ہمیں اس بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں مذہب کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔ مغرب کے اہم دانش ور ٹوفلر صاحب کہہ رہے ہیں کہ بحران کے حل اور چیلنجوں کے مقابلے کے سلسلے میں ہمیں مذہب کی مدد نہیں چاہیے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے خورشید ندیم صاحب فرما رہے ہیں کہ مذہب انسانیت کی مدد کے لیے آگے کیوں نہیں بڑھتا؟۔
خورشید ندیم فرما رہے ہیں کہ مشرق و مغرب میں کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ فساد سے کیسے نمٹا جائے؟ خورشید ندیم کے بقول مولانا مودودیؒ اور خمینی صاحب نے بھی جو کام کیا وہ مسلم فکر کے احیا کے لیے تھا ہمارے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ اگر خورشید ندیم کی فکر اتنی سرسری اور سطحی ہے تو انہیں اپنے قلم کو صرف نواز شریف کی حمایت تک محدود رکھنا چاہیے اور فکری کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
مسلمانوں کے پاس ’’انسانیت‘‘ کو دینے کے لیے سبھی کچھ ہے۔ مثلاً مسلمانوں کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے توحید ہے، قرآن ہے، رسالت ہے، رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ ہے، آخرت کا تصور ہے، معروضی اخلاق یا Objective Morality کا تصور ہے، بے مثال تصورِ انسان ہے، شاندار تصورِ زندگی ہے، لاجواب خاندان کا ادارہ ہے۔ مگر انسانیت بالخصوص مغرب کی ’’انسانیت‘‘ کو ان ہیروں میں سے کوئی ہیرا درکار نہیں۔ اسے مادی ترقی کا وہ کوئلہ چاہیے جس نے مغرب اور اس کے زیر اثر دُنیا کا منہ کالا کردیا ہے۔ مغرب کی انسانیت کو وہ آزادی درکار ہے جس سے بڑی غلامی کا تصور محال ہے۔ مغرب کی انسانیت کو ’’دائمی آخرت‘‘ کی کوئی تمنا نہیں، اسے ’’عارضی دنیا‘‘ درکار ہے۔ مغرب کی ’’انسانیت‘‘ کو ’’دائمی اخلاقیات‘‘ کے بجائے بیس پچیس سال میں بدل جانے والی اخلاقیات چاہیے۔ چناں چہ اسلام یا اسلامی مفکرین مغرب کی انسانیت کی کیا مدد کریں۔ آخرجو انسانیت ’’صحت‘‘ کو ’’بیماری‘‘ اور ’’بیماری‘‘ کو ’’صحت‘‘ سمجھتی ہو اس کا کوئی مولانا مودودی کیا بگاڑ سکتا ہے؟۔
مولانا مودودی عظیم الشان مفکر ہیں مگر جو مغرب خود اسلام کو مذہب، اسلام کے خدا کو خدا اور اسلام کے پیغمبر کو پیغمبر نہ مانتا ہو وہ مولانا سے کیا سیکھ سکتا ہے؟ تسلیم مولانا مودودی کا بیانیہ بھی کمزور ہوگا اور وہ صرف مسلمانوں کے لیے بھی ہوگا مگر قرآن کا بیانیہ تو بے پناہ طاقت کا حامل ہے اور اس کے مخاطب صرف مسلمان نہیں پوری انسانیت ہے مگر مغرب کے لوگ قرآن کے بیانیے سے بھی نہ تو متاثر ہیں نہ اس کی طرف متوجہ ہی ہیں۔ تو کیا خورشید ندیم معاذاللہ، اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرنے والے ہیں کہ ایسی کتاب اُتار جو انسانیت کو متاثر کرسکے۔
اسلام اور مسلمانوں کے پاس پوری مذہبی انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے اور وہ قرآن مجید کے الفاظ میں یہ ہے کہ اہل کتاب سے کہو کہ آئو ان باتوں پر متحد ہوجاتے ہیں جو تمہارے اور ہمارے مابین مشترک ہیں۔ مگر یہ بات نہ عیسائی مانتے ہیں نہ یہودی۔ یہ بات نہ ہندو سنتے ہیں نہ بدھسٹ۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے ایک ہزار سال سے اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں پر حملوں کو عادت بنایا ہوا ہے۔اس عرصے میں مسلمانوں نے ایک بار بھی عیسائیت اور یہودیت پر حملہ نہیں کیا، کیوں کہ ان کا دین انہیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ مگر یہودی اور عیسائیوں نے اس کے باوجود اسلام کے لیے اپنے کانوں کو بند کیا ہوا ہے۔ نائن الیون سے ذرا پہلے اور اس کے بعد بھی امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کئی بار مغرب میں ہونے والے بین المذاہب مکالموں میںشرکت کی۔ ہم نے ایک بار ان سے عرض کیا کہ ان مکالموں کا کچھ حاصل ہی نہیں، کیوں کہ اہل مغرب ’’خود کلامی‘‘ کے عادی ہیں۔ وہ مسلمانوں کی بات توجہ سے سنتے ہی نہیں۔ ابتدا میں قاضی صاحب نے ہماری رائے سے اتفاق نہ کیا مگر کئی تجربات کے بعد انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے تھے۔ اہل مغرب مکالموں میں بھی خود کلامی ہی کرتے ہیں۔ تو اب سوال یہ ہے کہ مسلمان انسانیت کو بحران سے نکالیں تو کیسے؟۔
مسلمانوں کے ساتھ مغرب کے تعلق کی تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ مغرب کو مسلمانوں کی وہ بات خوب سمجھ میں آتی ہے جو انہیں دنیا کمانے اور گمراہ ہونے میں مدد دے، مگر مغرب مسلمانوں کی وہ بات نہیں سمجھتا جو مغرب کو اللہ اور وحی کی روایت سے جوڑنے والی ہو۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ مغرب نے ابن رشد سے یونان کا فلسفہ تو خوب سیکھا مگر امام غزالی نے فلسفے کا جو رد لکھا ہے اُسے سیکھ کر نہ دیا۔ انہوں نے ابن رشد اور ابن سینا کی یہ بات تو مان لی کہ عالم قدیم ہے مگر غزالی کی یہ بات نہ مانی کہ صرف اللہ قدیم یا دائمی ہے۔ عالم مخلوق ہے اس لیے عارضی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو مغرب غزالی جیسے عالموں کے عالم سے کچھ نہ سیکھ سکا وہ مسلمانوں کے کسی اور مفکر سے کیا سیکھے گا۔
سوال یہ ہے کہ مغرب مذہب بالخصوص اسلام سے کچھ کیوں نہیں سیکھنا چاہتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید مغرب مذہب کو رد کرکے وجود میں آیا ہے اور وہ ہر مذہب کو قدیم یا ازکارِ رفتہ ترقی اور انسانیت کا دشمن سمجھتا ہے۔ چناں چہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہب اگر زندگی کے بارے میں جدید مغربی فکر کے ایجنڈے کو قبول کرلے تو مذہب کے سلسلے میں جدید مغرب کا رویہ نرم پڑ سکتا ہے۔ یہ مشورہ باطل کے آگے حق کے ’’Surrender‘‘ کا مشورہ ہے۔ اور اسلام کبھی باطل کے آگے ہتھیار نہیں ڈال سکتا۔ کچھ لوگ اسلام اور مغرب کے امتزاج کی بات بھی کرتے ہیں لیکن اصولی اعتبار سے حق و باطل کا امتزاج ممکن ہی نہیں۔ اسلام کا تاریخی تجربہ یہ ہے کہ اسلام جہاں گیا اس نے دوسری تہذیبوں اور کلچر کے حوالے سے ایک اصول کی پیروی کی۔ یعنی دوسرے کلچر کی جو چیز اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نہیں تھی اسے قبول کرکے اپنا بنا لیا اور جو چیز اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم تھی اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رد کیا۔ اس اصول کے تحت اسلام نے زبانوں کو اختیار کیا، لباس کو قبول کیا، کھانوں کو شرف قبولیت بخشا، رسوم و رواج کو گلے لگایا۔ جدید مغرب کے سلسلے میں بھی اسلام کا موقف یہی ہے۔