میاں منیر احمد
کچھ اضافی چیز مل جائے، یا کسی جانب سے کچھ اضافی مطالبات کیے جائیں تو یہی کہا جاتا ہے کہ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے، یہی کچھ اس عید پر بھی ہوا، تحریک انصاف کا نعرہ تھا دو نہیں ایک پاکستان، اگر اس نعرے کی گہرائی میں جائیں تو بڑا ہی پرکشش نعرہ ہے، کیوںکہ اس ملک میں غریب اور امیر کے لیے الگ الگ ’’ قانون‘‘ سمجھا جاتا ہے بلکہ تلخ حقائق بھی یہی ہیں۔ لیکن اس بار کیا ہوا، ایک پاکستان‘ عیدیں دو نہیں تین تین، کے پی کے میں دو عیدیں منائیں، ایک مولانا پوپلزئی کے ساتھ اور دوسری اہل پاکستان کے ساتھ، ایک ملک، کسی نے اٹھائیس روزوں کے بعد عید منائی اور کسی نے انتیس روزوں کے بعد، ایسے بھی ہیں جنہوں نے پہلا روزہ پاکستان میں رکھا اور مکہ اور مدینہ میں اعتکاف کیا، عید بھی وہیں کی یوں انہیں بھی اٹھائیس روزوں کے بعد عید مل گئی، یہ کیوں ہوا؟ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، یہ سوال ہم پوچھ سکتے ہیں اور نہ اس کا جواب ہمارے پاس ہے، کہ ہمارا علم بہت ہی محدود ہے، ہاں البتہ فواد چودھری نے ایک بار پھر مشکل آسان کردی کہ عیدالاضحی بارہ اگست کو ہوگی، اور اس کے بعد انہوں نے تو یوم عاشور کی تاریخ اور دن بھی بتادیا ہے، ہم صرف یہ معلوم کرنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ اختلاف محض عید الفطر اور رمضان المبارک ہی پر کیوں؟ باقی سب پر اتفاق، اور ہاں اتفاق تو اس پر بھی ہے کہ ملک میں حکومت نہیں ہے مگر مہنگائی ہے، یقینا اگر ملک میں حکومت ہو تو مہنگائی نہ ہو، مہنگائی سے متعلق جیسے بھی سوچ لیں، یہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کا نتیجہ ہے، یہ دونوں عمل حکومت کی نااہلی، غفلت اور فرائض انجام نہ دینے کے باعث ہورہے ہیں، مرکز کہتا ہے یہ صوبوں کا معاملہ ہے، مگر جہا ں جہاں مرکز کی عمل داری وہاں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کیا رک گئی ہے؟ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی سفارش پر اشیاء کے نرخ متعین کیے جاتے ہیں، ذرا یہ تو معلوم کرلیا جائے کہ پرائس کمیٹیوں کے ارکان کون ہیں، انتظامیہ اور تاجر تنظیموں کے نمائندے ان کمیٹیوں کے ارکان ہیں جو باہم مل جل کر نرخ طے کرتے ہیں اور پھر سستے بازاروں، مارکیٹیوں اور رمضان بازاروں میں لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا مگر عوام ہیں کہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، تنخواہ دار طبقہ تو حقیقی معنوں میں معاشی طور کچل دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ اور لفظی جنگ عروج پر ہے یعنی ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کچلی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر ملکی مفادات کو چن چن کر ذبح کرنے والے پرویز مشرف کا ساتھ دینے والے انصافی وزراء اور سیاست دان جو اب نئے پاکستان کا نعرے لگانے والوں کے ساتھ ہیں وہ ہمہ وقت چور ڈاکو اور کرپشن کرپشن کی گردان میں مصروف ہیں بہر حال ہمیں کچھ سوچنا ضرور ہے ایک ملک، ایک قوم، ایک اللہ، ایک ایمان، ایک چاند، ایک روزہ ایک عید۔ یہ سب دعوے محض دعوے ہی نظر آتے ہیں۔ اس قوم نے بہت سے تنازعات دیکھے، چاہے وہ فرقہ واریت ہو نسلی یا پھر لسانی تفرقے دیکھا جائے تو معاشرے کے افراد میں کسی مسئلے پر مختلف آرا کا پایا جانا اس معاشرے کی فکری بلندی کے لیے صحت مند عنصر ثابت ہوتا ہے دین اسلام بھی عبادات سمیت تمام معاشرتی و معاشی معاملات میں مختلف آرا رکھنے کی اجازت دیتا ہے جو شرعی اصولوں کی بنیاد پر مرتب کی جا سکتی ہے۔ ایک معاشرے میں بسنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہوئے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوئے اپنے اپنے مذاہب کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ایک خوش آئند عمل، اس معاشرے اور دین کی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں رمضان اور عید کے معاملے کو لے کر بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں یہ تنازع ہے کیا؟ ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے آج پاکستان میں تین عیدیں اوردو رمضان منائے جا رہے ہیں۔ بنوں میں چاند دیکھے جانے کی 14 شہادتیں ملیں۔ پشاور میں 27 کے قریب شہادتیں ملیں، جبکہ مختلف پہاڑی علاقوں سے درجنوں سے زائد شہادتیں موصول ہوئیں وفاقی حکومت بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکی اس طرح اس ایک بار پھر پاکستان دو سے زائد عیدوں اور رمضان میں بٹ گیا ایسی صورت حال میںسوال تو اٹھتا ہے، جب عمران خان کی حکومت خیبر پختون خوا تک محدود تھی تو وہ وفاق کے ساتھ ہی عید مناتے تھے، آج جب حکومت وفاق میں ہے تو صوبائی وزیروں اور گورنر نے کے پی میں ایک دن پہلے عید منانے کا سرکاری اعلان کردیا بس یہی کہنا ہے کہ خدارا، یہ امت ایک ہے اور اس کی یکجہتی میں اپنی سیاست کے لیے دراڑیں ڈالنے سے اجتناب کریں الزام اور جوابی الزام میں مصروف جماعتیں بھی پاکستانی بنیں اور قوم کو بھی پاکستانی بنائیں ان جماعتوں کی ہر چیز پر توجہ ہے اگر نہیں تو مہنگائی پر نہیں ہے، جس نے عوام کا انجر پنجر نکال دیا ہے وہ سوال کر رہے ہیں کہ اقتصادی بد حالی، مہنگائی، بیروزگاری، بجلی،گیس، پیٹرولیم مصنوعات کے بعد، ڈالر کی قدر میں اضافے اور روپے کی ناقدری پر سابق حکومتوں پر تنقید کرنے والے اور دن رات عوام کو سبز باغ دکھانے والے تبدیلی کے دعویدار وہ سب کام خود کیوں کر رہے ہیں؟ یہ عوام کو باور کراتے تھے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن یہ دعوے کہاں گئے صرف کرپشن کرپشن کا راگ الاپنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ عوام بھی ملک کے با اثر طبقات کا احتساب چاہتے ہیں لیکن وہ سب کا بلا تفریق احتساب چاہتے ہیں۔ لفظی گولہ باری کے ماہر سیاست دان چاہے اپوزیشن کے ہوں یا حکومت سے انہیں سنجیدگی سے حقیقی عوامی مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دینا چاہیے۔ ایک دوسرے کے خلاف احمقانہ بیان بازی کی آڑ میں عوامی مسائل کو نظرانداز کرنا عوام کے ساتھ بڑا سنگین مذاق ہے۔