کشمیرپاک بھارت تعلقات کا لٹمس ٹیسٹ؟

177

وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی کو انتخابی کامیابی اور دوسری بار وزیر اعظم بننے پر مبارکباد کا ٹیلی فون کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں کے درمیان پندرہ منٹ تک گفتگو ہوئی اور وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی سے دونوں ملکوں کے عوام کی فلاح اور بھلائی کے لیے مل جل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہا ر کیا۔ عمران خان کے خیالات اور خواہشات کے جواب میں نریندر مودی نے کیا کہا؟ اس کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ ظاہر ہے رسمی کال کے جواب میں رسمی طور پر نریندر مودی نے بھی انہی جذبات واحساسات کا اظہار کیا ہوگا۔ بھارتی انتخابات سے پہلے ہی عمران خان نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ نریندر مودی کی کامیابی کی صورت میں بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنا آسان ہو ں گے۔ اس جملے اور خواہش کا ایک پس منظر بھی تھا۔ جس طرح عمران خان اور ملک کی ہئیت مقتدرہ کو اس وقت ایک پیج پر سمجھا جا رہا ہے اور یہ ایک واضح حقیقت بھی ہے۔ اس طرح نریندر مودی بھارت کے مذہبی عناصر اور قوم پرستوں اور اسی ناتے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ اور حمایت یافتہ ہیں۔ کانگریس کا حال اس لحاظ سے اچھا نہیں رہا۔ بالخصوص سونیا گاندھی کے کانگریس کی باگیں سنبھالنے کے بعد اس جماعت کی جھجک اور کمزوری میں اضافہ ہوگیا کیونکہ بھارتی انتہا پسند انہیں اب بھی ایک اطالوی اور غیر ہندوستانی اور غیر ہندو خاتون ہی سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ بھارت کے مقدر کا مالک ومختار ایک غیر ملکی خاتون کو نہیں بنایا جا سکتا۔ جب سے سونیا گاندھی اپنی کرسی راہول گاندھی کے لیے خالی کرکے تھوڑا پس منظر میں چلی گئی ہیں تو یہ غیر ملکی کی پھبتی کسے جانے کا سلسلہ بھی کم ہوگیا ہے مگر اس حوالے سے ایک سخت گیر مائنڈ سیٹ وجود میں آچکا ہے۔
نریندر مودی کسی جھجک، غداری، سودے بازی کے الزام کے خوف سے بے نیاز ہو کر ’’بڑا فیصلہ‘‘ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہی سہولت اٹل بہاری واجپائی کو بھی حاصل تھی اور اسی سہولت کا فائدہ اُٹھا کر واجپائی نے چند قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب نریندر مودی انتخابی ضرورتوں سے فارغ ہو چکے ہیں اور اب انہیں اپنی دوسری بار کی کامیابی کو بامعنی بنانا ہے۔ عمران خان نے ٹیلی فون کرکے نریندر مودی کی طرف ایک سکہ اُچھال دیا ہے۔ گزشتہ دنوں وسط ایشیائی ریاست کرغیزستان کے دارالحکومت میں منعقد ہونے والی شنگھائی ملکوں کی کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان مختصر سی ملاقات، تصویر بنوانے اور چند ہلکے پھلکے جملوں کے تبادلے کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ تصویر میں دونوں وزرائے خارجہ ایک ساتھ بیٹھے ہیں اور یوں لگ رہا تھا کہ یہ تصویر برف پگھلنے کا تاثر دینے کی ضرورت کے تحت ہی بنوائی گئی تھی۔ ہلکے پھلکے جملوں کی تفصیل کے مطابق سشما سوراج نے شاہ محمود قریشی کو کہا تھا کہ اکثر آپ کڑوی باتیں کر جاتے ہیں اس لیے مٹھائی لائی ہوں تاکہ آپ میٹھی باتیں کریں۔ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے رویے میں مثبت تبدیلی کی امید کا اظہار کیا تو سشما سوراج نے کہا کہ ہم آپ سے اور آپ سے ہم بہتر رویے کی امید رکھیں۔ رکن ممالک کے گروپ فوٹو بنوانے کے دوران سشما سوراج نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ کھڑا ہونے کی کوشش کی جس پر روسی وزیر خارجہ نے انہیں اس جگہ سے ہٹایا اور خود کھڑے ہوئے۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان یہ ایک رسمی سی ملاقات اور فوٹو سیشن تھا جس کے پیچھے شنگھائی ملکوں کا دبائو اور ترغیب بھی ہو سکتا ہے۔
سشما سوراج پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید تنائو میں تھوڑ سی کمی کر چکی تھیں کہ نریندر مودی نے نئی کابینہ میں ان کی جگہ بھارت کے سابق سفیر اور سابق سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر کو وزیر خارجہ بنا دیا۔ جے شنکر ایک کیئریر ڈپلومیٹ کے طور پر بھارت کی سخت گیر لابی کے پسندیدہ بتائے جاتے ہیں۔ چین کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ کی مخاصمت کے سفارتی حکمت کاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ چینی قیادت کی کوشش اور خواہش یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود ڈیڈ لاک ختم ہوجائے اور معاملات بہتری کی سمت میں چلنا شروع کر دیں۔ کشیدگی کے حالیہ دور نے دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں اور تعلقات کی بہتری کے امکانات کو کلی طور ہر معدوم کر دیا ہے۔ اس دوران ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود کو چھیاسی روز کے بعد بھارتی پروازوں کے لیے کھول دیا۔ اس سلسلے میں دہلی سے یوکرائن جانے والی پرواز پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کرتے ہوئے گزری۔ بالاکوٹ حملے کے بعد پاکستان نے بھارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی۔ اس وجہ سے پوری دنیا کی پروازیں متاثر ہو رہی تھیں مگر بھارت اور افغانستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل تھے۔ چھیاسی روز بعد پاکستان نے اچانک اپنی فضائی حدود کھول دیں تو اسے غیر معمولی پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اب معاملات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر نریندر مودی کی دوبارہ جیت کے بعد غیر یقینی اور خوف کے بادل گہرے ہوئے جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان خوش گوار تعلقات کا لٹمس ٹیسٹ کشمیر ہے۔ جب تک کشمیر کی زمین پر مظالم کم نہیں ہوتے اور دونوں فریق کشمیر کی مرکزیت کے حامل مذاکرات شروع نہیں کرتے، مٹھائیوں کے تبادلے خیر سگالی کی ٹیلی فون اور پُرمزاح جملے امن کی تصویر میں حقیقت کا رنگ نہیں بھر سکیں گے۔ حریت کانفرنس کے سربراہ میرواعظ عمر فاروق نے اپنے روایتی مرکزجامع مسجد سری نگر میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کے بھرپور مینڈیٹ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ مل کر آگے بڑھیں اور خدارا مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔ جس طرح مودی نے ایک سخت گیر کئیریر ڈپلومیٹ اور اپنی سفارت کاری کے حکمت کار جے شنکر کو وزیر خارجہ بنایا اسی طرح انہوں نے اپنی انتخابی اور فتوحات کے حکمت کار امیت شاہ کو وزارت داخلہ کا قلمدان سونپ دیا۔ امیت شاہ بھارتیا جنتا پارٹی میں سخت گیر اور انتہا پسندانہ سوچ کے حامل ہیں اور نریندر مودی پر ان کی فکر کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ امیت شاہ کی سوچ کا اندازہ راہول گاندھی کے بارے میں دیے جانے والے ان ریمارکس سے ہوتا ہے کہ راہول کو سبز وائرس لاحق ہو گیا ہے۔ یہ راہول گاندھی کے مسلمانوں کی جانب جھکائو پر طنز کا ایک گہرا نشتر تھا۔ بہ لحاظ عہدہ امیت شاہ کشمیر میں جاری فوجی آپریشن کے نگران ہوں گے اور اپنی موجودہ ذہنیت کے ساتھ وہ کس انداز سے نگرانی کریں گے اس معاملے میں کوئی خوش فہمی نہیں رہنی چاہیے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ کشمیر میں طاقت کا مزید بے رحمی استعمال اور کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والے قوانین کے خاتمے کی کھلی اور ڈھکی کوششیں ہیں۔