رضی اللہ عنہم

363

صحابہ کرام اور اسلام کا ایک دوسرے سے تعلق بڑا عجیب ہے۔ قرآن اور رسالت مآبؐ سے ان کی وابستگی حیرت انگیز ہے۔ آسمان سے قرآن اترتا وہ اس پر عمل کرتے۔ قرآن جن چیزوں سے منع کرتا وہ اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ قرآن کی کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو پریشان ہوجاتے اور سمجھنے کے لیے سر کارؐ کی طرف لپکتے۔ ان کو مسائل پیش آتے تو حل کے لیے قرآن کی آیات اترتیں۔ کبھی قرآن ان کی تربیت کرتا تو کبھی ان کے اعمال پر انھیں بشارتیں سناتا نظر آتا ہے۔ رسول اللہؐ انہیں قرآن سکھاتے تو وہ اس کی حفاظت قیمتی خزانے سے بڑھ کر کرتے۔ وہ کاتب وحی تھے۔ ان کی رائے کے احترام میں قرآن آسمان سے اترتا۔ ان میں سے جو ماہرین تھے انہیں قرآنی آیات کا علم تھا کہ وہ کب، کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوا۔ وہ دن رات قرآن کو سمجھنے کے لیے کوشاں رہتے۔ مجالس کا انعقادکرتے۔ قرآن کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے اترتے دیکھا۔ عالی مرتبتؐ پر قرآن اترنے کی کیفیت کے شاہد تھے۔ کہیں قرآن ان کی شان میں اترا، کہیں ان کے دفاع میں، کہیں ان کے اوصاف بیان کرنے میں اتر اور کہیں ان کے کمالات بیان کرنے۔ اگر کسی کو قرآن، حدیث اور صحابہ کے تعلق کا اتنا بھی پتا ہے جتنا سمندروں میں ایک قطرہ پانی، وہ یہ اعتراف کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا کہ صحابہ کرامؓ کا قرآن اور حدیث میں جس قدر عبور تھا دوسروں کو نہیں ہوسکتا۔ عطا اللہ شاہ بخاری فرمایا کرتے تھے ’’صحابہ کرام تاریخی نہیں قرآنی شخصیات ہیں اور قرآن پر تنقید نہیں ایمان لایا جاتا ہے‘‘۔
آج اسلام اپنی جملہ تعلیمات کے ساتھ جس جامعیت کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہے وہ صحابہ کرام کی اسلام سے بے حدو حساب محبت اور حیران کردینے والی محنت کا ثمرہ ہے۔ محدثین کرام اور فقہاء سلف کے حالات میں غور کرنے سے یہ خیرہ کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ انہوں نے علم حدیث کے حصول، احادیث کی تحقیق، راویوں کی جرح وتعدیل اور رجال کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی خاطر ایسے طویل، پُر مشقت، سنگین اور دشوار سفر کیے کہ ان کی حیرت افزا وسعت آج بھی حیران کن ہے۔ ابن المقری کہتے ہیںکہ میں نے روئے زمین میں مشرق ومغرب سے لے کر چار مرتبہ سفر کیا۔ مشرق سے مراد وسطی ایشیا میں مسلمانوں کے علوم وفنون کے مرکز سمرقند وبخارا، مغرب سے ان کی مراد اسپین، اندلس، غرناطہ، فارس، قیروان، رباط گویا اندلس سے لے کر سمرقند وبخارا تک، شمال میںآذربائی جان اور آرمینیا سے لے کر جنوب میں یمن اور مصر تک انہوں نے علم حدیث کی تلاش میں اس پورے علاقے کا چار مرتبہ چکر لگایا۔ امام یحییٰ بن معین کہ علم حدیث کا کوئی تذکرہ ان کا نام لیے بغیر مکمل نہیں ہوتا ان کے والد نے دس لاکھ پچاس ہزار درہم ترکے میں چھوڑے تھے۔ انہوں نے یہ کثیر سرمایہ پورے کا پورا علم حدیث کے حصول اور اس کی خاطر سفر کرنے میںصرف کردیا۔ اس دنیا زدہ اور خود سے بیگانہ عصر حاضر کے چھوٹے سے ظرف میں نہ یہ عظیم کام سما سکتا ہے اور نہ جدید انسان اس کا تصور کرسکتا ہے۔
حدیث کی روایت میں کڑی احتیاط کی خاطر محدثین کرام نے سند کی پابندی اپنے اوپر لازم کی جو اس امت کی خصوصیت ہے۔ سند کا سب سے اہم اصول یہ ہے کہ جو شخص بھی کوئی حدیث بیان کرے پہلے وہ یہ بیان کرے کہ اسے یہ حدیث کس نے سنائی اور پھر اس سنانے والے نے کس سے سنی۔ یوں یہ سلسلہ ان صحابی تک پہنچ جائے جنہوں نے یہ حدیث آپؐ سے خود سنی۔ اب یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ جو حدیث بیان کی گئی ہے اس میں کوئی راوی نہیں چھوٹا، سب نام اس میں آگئے اور وہ سب کے سب ثقہ، قابل اعتماد، اور قوی حافظے والے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے فن اسماء الرجال ایجاد کیا گیا۔ حسن بصری اور محمد بن سیرین یہ دونوں حضرات اس فن کے بانی ہیں۔
فن اسماء الرجال میں تمام راویوں کے ضروری حالات زندگی قلم بند کردیے گئے ہیں۔ ہر راوی کے متعلق یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ کب اور کہاں پیدا ہوا۔ کب اور کہاں وفات پائی۔ اس نے کن محدثین سے علم حاصل کیا۔ حدیث کے ساتھ اس کی دلچسپی کا کیا عالم تھا۔ مشاغل کیا تھے۔ چال چلن کیسا تھا۔ حا فظہ قوی تھا یا کمزور۔ ثقہ تھا یا غیر ثقہ تھا۔ عالم تھا یا جاہل تھا۔ ناقدین کی رائے اس کے بارے میں کیا تھی۔ اس کے شاگرد کون لوگ تھے۔ ان جزئی باتوں کا پتا لگانا انتہائی دشوار عمل تھا۔ مگر ہزاروں محدثین نے اپنی عمریں اس میں کھپادیں۔ قریہ قریہ شہر شہر پھرے۔ راویوں سے ملے۔ ان سے متعلق ہر قسم کے حالات دریافت کرکے انہیں قلم بند کرتے رہے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں اسماء الرجال کا وہ عظیم الشان فن وجود میں آیا جس کے متعلق ڈاکٹر اسپرنگر جیسے متعصب مورخ کو بھی یہ لکھنا پڑاکہ ’’کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصیات کا حال معلوم ہو سکتا ہے‘‘۔
وزیراعظم عمران خان کی جہالت اور نا اہلی اب کوئی غیر یقینی بات ہے اور نہ اختلافی۔ گزشتہ دنوں انہوں نے غزوہ بدر اور غزوہ احد کے حوالے سے صحابہ کرام کے بارے میں اپنی سطحی، خیالی اور جاہلانہ معلومات کا اظہار کیا۔ غزوہ بدر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جنگ بدر میں صرف 313صحابہ شریک ہوئے باقی ڈرگئے۔ عمران خان کی اس بے کار اور فضول بات پر کچھ کہنے سے پہلے غزوہ بدر کے اسباب ملا حظہ فرمائیے۔
قریش کا اک قافلہ شام سے مکہ کی طرف آنے والاتھا۔ عالی مرتبتؐ نے طلحہ بن عبید اللہؓ اور سعید ؓ بن زید کو ان کا پتا لگانے کے لیے روانہ کیا۔ جب ابوسفیان یہ قافلہ لے کر آتے نظر آئے تو یہ دونوں اصحاب تیز رفتاری سے مدینہ پلٹے اور نبی کریمؐ کو اس کی اطلاع دی۔ اس قافلے میں بڑی دولت تھی۔ ایک ہزار اونٹ، ساڑھے باسٹھ کلو سونے کی مالیت کا سازو سامان۔ اہل مکہ کے لیے یہ دولت بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی حیثیت رکھتی تھی۔ اس آمدنی سے وہ ریاست مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا چا ہتے تھے۔ اس لیے رسالت مآبؐ نے مسلمانوں میں اعلان کیا کہ قریش کا قافلہ مال ودولت لیے چلا آرہا ہے اس لیے نکل پڑو ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسے بطور غنیمت کے تمہارے حوالے کردے۔ آپؐ نے کسی پر روانگی کے لیے زور نہیں دیا۔ لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ اس اعلان کے وقت یہ توقع نہیں تھی کہ قریش کے لشکر کے ساتھ میدان بدر میں ایک نہایت پر زور ٹکر ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے صحابہ کرام مدینے ہی میں رہ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ رسول اللہؐ کا یہ سفر بھی گزشتہ فوجی مہمات کی طرح ہوگا جن میں جنگ کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اس لیے غزوے میں شریک نہ ہونے والے صحابہ کرام ؓ سے کوئی باز پرس بھی نہ کی گئی۔ اسلامی لشکر میں 313 یا 314 افراد تھے۔ پورے لشکر کے پاس دو گھوڑے اور سترہ اونٹ تھے۔ اس لشکر نے غزوے کا کوئی اہتمام کیا تھا نہ تیاری۔
یہ تھی صحابہ کرام کی غزوہ بدر میں شرکت نہ کرنے کی وجہ۔ ڈر اور خوف سے جس کا دور دور تعلق نہ تھا۔ صحابہ کرام بہادروں اور شہ سواروں کا ایک ایسا دستہ تھے دنیا کے سب سے جری، دلیر اور بہادر ہستی ختم المرسلینؐ نے ان کی تربیت کی تھی۔ صحابہ کرام ؓ نے اپنے خون سے اسلام کی آبیاری کی۔ اس زمین اور آسمان نے ان سے زیادہ نڈر اور شجاع انسانوں کی جماعت نہیں دیکھی۔ دو گھوڑے آٹھ تلوایں 313 افراد اور سامنے ایک ہزار مسلح کفار۔ ان سے لڑنا اور عظیم فتح حاصل کرنا بہادری نہیں تو پھر بہادری کسے کہتے ہیں۔ کیا یہ ڈر جانے والوں کی نشانیاں ہیں۔
(جاری ہے)