معاشی دلدل!

185

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ حکومت کی گاڑی سیاسی دلدل میں پھنس چکی ہے، گاڑی اسٹارٹ کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے مگر کبھی ایڑھی دکھنے لگتی ہے اور کبھی چوٹی گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔ ان حالات میں گاڑی کسی بھی وقت سیز ہوسکتی ہے۔ سیاسی دلدل کو معیشت کی مٹی سے پاٹا جاسکتا ہے مگر جب سیاسی دلدل معاشی دلدل بن جائے تو خاکم بدہن ملک رزق خاک بننے لگتا ہے۔ عمران خان کی ’’انا‘‘ اور میں نہ مانوں کی تکرار نے مقتدر قوتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ کب تک عمران خان کو اُنگلی پکڑ کر چلاتے رہیں گے اور اب تو انگلی اُٹھنے کے قابل بھی نہ رہی۔ نوجوان طبقے کو بھی عمران خان سے بہت سی توقعات تھیں مگر اب سحر ہونے کی اُمید دم توڑنے لگی ہے۔ مہنگائی کے سونامی نے ساری اُمنگوں کو نگل لیا ہے اور بے روزگاری کے عفریت نے حوصلوں کو کچل دیا ہے۔ کروڑوں ملازمتیں دینے کا وعدہ کرنے والوں نے لاکھوں برسر روزگار جوانوں کو بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل دیا ہے۔ ہزاروں صاحب گھر لوگوں کو سڑکوں پر پھینک دیا ہے، قوم کو جس تیزی خط غربت کی طرف دھکیلا جارہا ہے وہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے جس پر قابو نہ پایا گیا تو عوام بے قابو ہوجائیں گے اور عمران خان کو مستعفی ہونے کا موقع بھی نہ ملے گا۔
یہ کیسا تماشا! ہے کہ عمران خان ایک طرف کرپٹ لوگوں سے مفاہمت نہ کرنے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف کرپٹ لوگوں کو اپنی کابینہ کی زینت بنارہے ہیں۔ نیب کو مطلوب لوگوں کو اپنی پناہ میں لے رہے ہیں۔ ٹیکس چوروں اور کالا دھن چھپانے والوں کو سہولتیں اور مراعات سے نوازنے کے لیے راہیں ہموار کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 22 سال سے ملکی سیاست اور پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کررہے تھے، ایک تسلسل کے ساتھ قوم کو باور کرارہے تھے کہ اقتدار کے ہنڈولے میں پینگیں لینے والوں نے پاکستان دشمن قوتوں سے پینگیں بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ یہ لوگ تو رنگیلے شاہ سے بھی زیادہ سنگین اور رنگین طبع ہیں ان کی سوچ کی حد قومی خزانے اور ملکی وسائل کو ہڑپ کرنے تک محدود ہے۔ انہوں نے قومی دولت اور ملکی وسائل کو لوٹنے کے لیے باریاں لگائی ہوئی ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اگر قوم نے موقع دیا تو وہ پاکستان کو اتنا خوشحال بنادیں کہ دوسرے ممالک کے لوگ حصول روزگار کے لیے پاکستان کا رُخ کیا کریں۔ آگے کہتے ہیں مسلسل جھوٹ بولا جائے، غلط بیانی کو ورد بنالیا جائے تو سماعتوں میں رس گھولنے کا باعث بنتا ہے اقتدار ملنے کے بعد ان کا نیا بیانیہ یہ ہے کہ حکومت سے زیادہ آسان کام کوئی اور نہیں گویا! ان کی نظر میں حکمرانی بچوں کا کھیل ہے کانٹوں کی سیج نہیں۔ عمران خان کا طرزِ حکمرانی شیرخوار بچوں جیسا ہی ہے، بچے گھٹنوں کے بل چلنے لگتے ہیں تو بار بار گرتے ہیں مگر وہ چوٹ کی پروا نہیں کرتے یا اس احساس سے محروم ہوتے ہیں، گرتے ہیں تو قلقاری مار کر ہنستے ہیں اور پھر چلنے لگتے ہیں۔ عمران خان بھی بار بار گر رہے ہیں اور قہقہہ پر قہقہہ مار کر چل پڑتے ہیں۔ ووٹ دینے والے ہنگائی کے بوجھ تلے دبے چیخ رہے ہیں، سسک رہے ہیں اور انہیں وزارت عظمیٰ سے نوازنے والے عوام کی چیخوں سے دہل رہے ہیں۔ شنید ہے عمران خان پر لہولہان ہونے والے اپنی غلطی سدھارنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
اشیائے ضروریات کے نرخ عوام کی قوت خرید سے بڑھ رہے ہیں مگر عمران خان قوم کو نوید پر نوید سنارہے ہیں۔ کہتے ہیں چند ماہ اور صبر کرو، ہر شہری کو گھر اور ملازمت ملے گی، ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا دعویٰ کرنے والے چور، ڈاکو اور لٹیرے تھے، ہم دودھ کی نہیں تیل کی نہریں بہائیں گے۔ بس چند دن کی بات ہے اتنا تیل نکلے گا کہ سنبھالے نہ سنبھلے گا۔ پاکستان کا شمار تیل برآمد کرنے والے ممالک میں ہونے لگے گا مگر پٹرولیم کی وزارت کا کہنا ہے کہ سمندر سے تیل نکالنے کی کوشش کرتے کرتے قوم کا تیل نکل گیا۔ کروڑوں ڈالرز برباد ہوگئے، جس کی کمی پوری کرنے کے لیے مہنگائی کا سونامی لانا پڑا۔ میاں نواز شریف کو مودی کا یار کہنے والے مودی کی یاری کی خواہش میں ذہنی دبائو کا شکار ہوگئے ہیں شکار خود شکار ہوجائے تو المیے جنم لیتے ہیں۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ نے ملک وقوم کو ایسے المیے کے حوالے کردیا ہے جہاں سارے حوالے ڈائریکٹ حوالدار بن گئے ہیں۔