بہاولپور کا مخدوم

255

 

 

جنوبی پنجاب کے امیر جماعت اسلامی رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹر سید وسیم اختر اہل بہاولپور کو بہت پیارے تھے اب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ وہ فطرتاً درویش منش تھے، عملاً خادم خلق تھے اگر انہیں بہاولپور کی سیاست کا مخدوم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا سیاست دان عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور ان کی ذہنی آزادی کا علم بردارا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اتنے خوش اخلاق، خوش مزاج اور خوش کلام تھے کہ انہیں مرحوم کہتے ہوئے زبان لرزنے لگتی ہے اور مرحوم لکھتے ہوئے قلم لڑکھڑانے لگتا ہے۔
ایک بیوہ عورت نے ڈاکٹر صاحب سے گزارش کی کہ اس کی بیٹی نے میٹرک بہت نمایاں اور اچھے نمبروں سے پاس کیا ہے اور کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے، میری بھی یہی خواہش ہے مگر شوہر کی وفات کے بعد محنت مزدوری کرکے گھر کا خرچ بمشکل چلارہی ہوں، بیٹی کو کالج میں داخلہ دلانے کی کوئی سبیل نہیں، اگر آپ خدا ترسی کریں تو ایک یتیم بچی اپنی تعلیم مکمل کرلے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے بچی کے داخلے اور دیگر اخراجات ادا کرنے کی حامی بھرلی مگر یہ کسی سیاست دان کا وعدہ نہیں تھا ایک سید زادے کا عہد تھا اور انہوں نے اپنے عہد کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا اور یوں ایک یتیم اور بے سہارا بچی نے اپنی تعلیم مکمل کرلی، یہاں یہ بتانا بے جا نہ ہوگا کہ وہ بیوہ عورت ایک بڑی سیاسی جماعت کی سرگرم رکن تھی اس نے ڈاکٹر صاحب سے مالی امداد کی گزارش اس لیے کی تھی کہ اسے یقین تھا کہ ڈاکٹر صاحب رکن اسمبلی نہ رہے تب بھی تعلیم میں خلل نہ پڑے گا۔
کسی سیاست دان کی مقبولیت کا اندازہ اس کے سیاسی کاموں اور حکومتی عہدے سے نہیں لگایا جاسکتا، عوام کے احساسات، جذبات اور خیالات ہی اس کی مقبولیت کی سند ہوتے ہیں اور اس معاملے میں ڈاکٹر صاحب مستند تھے۔ ان کی وفات پر کسی چھابڑی والے نے کیا خوب اظہار خیال کیا ہے۔ کہتا ہے، آج وہ صحیح معنوں یتیم ہوگیا ہے اور ایک صنعت کار کا یہ کہنا کہ ڈاکٹر سید وسیم اختر کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ مدتوں ہمیں خلا میں معلق رکھے گا۔ ڈاکٹر کی زندگی کا مقصد اسلام کی سربلندی تھا۔ ان کی مذہبی اور سیاسی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وکٹوریہ اسپتال بہاولپور کی توسیع اور تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ بہاولپور کی خوبصورتی میں ان کا حسن کارکردگی بھی قابل ذکر ہے۔ ان دنوں اہل بہاولپور کا ایک اہم مسئلہ صوبے کا قیام ہے، اس ضمن میں انہوں نے پنجاب اسمبلی میں آٹھ بار قرار داد پیش کی مگر ان کے پیش رو جو پیش بندی کرگئے تھے وہ آڑے آتی رہی۔ ایک قرار داد تعلیمی نصاب میں قرآن کریم کو لازمی مضمون قرار دینے سے متعلق بھی پیش کی تھی۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر کو بہت سے خطابات اور القابات سے نوازا گیا، کوئی انہیں مخدوم بہاولپور کہتا، کوئی محسن بہاولپور کہتا، کوئی بہاولپور کا سائبان کہتا۔ وہ تین بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور ہر بار اپنی ذمے داریوں کو دیانت داری سے نبھایا، اپنے اختیارات اور عوامی جذبات کی اسمبلی اور اسمبلی سے باہر بھرپور ترجمانی کی۔ بہاولپور وکٹوریہ اسپتال میں آج کارڈیالوجی، بون میرو، گردے کے امراض اور آئی سی یو میں مریضوں کو جو سہولتیں حاصل ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کی جدوجہد کا ثمر ہیں۔ یہاں یہ تذکرہ نامناسب نہ ہوگا کہ بہاولپور اور اہل بہاولپور کی جو خدمات ڈاکٹر سید وسیم اختر مرحوم نے سرانجام دیں وہ سیاسی پس منظر رکھنے والے ارکان اسمبلی نہ کرسکے۔ اس ضمن میں سید تابش الوری اور چودھری سمیع اللہ جنہیں پیار سے اہل بہاولپور سمیع بھائی کہتے ہیں کو اس صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں رکن اسمبلی کا تعلق غیر سیاسی گھرانوں سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب غیر سیاسی پس منظر رکھنے والے قوم کی بہتر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں تو پھر پیشہ ور سیاست دانوں کے ناز نخرے کیوں برداشت کیے جارہے ہیں! کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ غیر سیاسی شخصیات کو سامنے لایا جائے۔ شاید جمہوری نظام میں یہ ممکن نہیں اس لیے ہم ایک مدت سے کہہ رہے ہیں کہ قومی حکومت تشکیل دی جائے ورنہ چور، ڈاکواور لٹیروں کا راگ الاپنے والے ڈاکوئوں کے ڈاکو ثابت ہوں گے۔ ان کی وفات پر کسی مداح نے ٹوئٹ کیا۔ آج دارالسرور، مملکت خداداد بہاولپور دوسری بار یتیم ہوگئی۔ مملکت خداداد کو یتیم کہنا اور دوسری بار یتیم کہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مگر یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ایسے موقعوں پر الفاظ بے معنی ہوجاتے ہیں جب جذبات اور احساسات مجسم ہوجائیں تو لفظوں پر غور نہیں کیا جاتا۔