مریم و بلاول ملاقات اور جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک!

226

 

ملک کا سیاسی موسم بھی قدرتی موسم کی طرح گرم چل رہا ہے۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کے رہنما پیپلز پارٹی کے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری اور مسلم لیگ نواز کی مریم نواز کچھ زیادہ غصے کا اظہار کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان دونوں کا غم و غصہ سیاست سے زیادہ فطری ہے کیوںکہ دونوں کے والد بیک وقت جیل میں ہیں۔ جبکہ دونوں ہی کی جماعتوں کے بیش تر رہنما نیب کی کارروائیوں کی زد میں آچکے ہیں۔ ایسے میں بلاول اور مریم کے پاس حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کے سوا اور کوئی راستہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں کی پہلی بار ون آن ون ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں جو چند ماہ قبل تک ایک دوسرے کی پارٹیوں اور والد صاحبان کے خلاف جو منہ میں آئے کہے جاتے تھے۔ اس ملاقات میں کس طرح چند فٹ کی دوریوں پر رہ سکے گے ہوں؟ کیا دونوں نے اپنی سیاسی غلطیوں پر ایک دوسرے سے معافی مانگ لی ہوگی؟
بہرحال دونوں جماعتوں کی سیاست کے نام پر جدوجہد کا اصل مقصد کسی بھی طرح ملزم آصف زرداری اور مجرم نواز شریف کی قید سے رہائی کے لیے آسانیاں پیدا کرنا یا ریلیف دلانا ہے۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ اتوار کو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول زرداری اور مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کے درمیان لاہور جاتی عمرہ میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد بلاول زرداری نے کہا کہ: ’’ہم نے حکومت کو بہت مواقع دیے کہ وہ عوام دوست بجٹ پیش کرے، مریم نواز سے ملاقات کے دوران یہ طے پایا ہے کہ ’اب حکومت جاتی ہے تو جائے، عوام دشمن بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول زرداری نے کہا کہ عوام اور جمہوریت کی خاطر آواز اٹھائیں گے، مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکلیں گے اور 21 جون کو نواب شاہ میں جلسے سے مہم شروع کروں گا۔ گو کہ دونوں بچوں نے ’’طبل جنگ‘‘ بجا دیا۔
سیاسی حالات کی گرما گرمی صرف یک طرفہ نہیں ہے، حکومت کی جانب سے بھی بھر پور کارروائیوں کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے کمیشن آف انکوائری قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کمیشن دس سال میں قرضے 24ہزار ارب تک بڑھنے کی تحقیقات کرے گا، کمیشن رقم خرچ کرنے والے متعلقہ وزرا سمیت تمام وزارتوں اور ڈیویژنز کا بھی جائزہ لے گا۔ یہ کمیشن خورد برد پائے جانے پر رقم خزانے میں واپس لانے کے لیے کام کرے گا، کمیشن ذاتی استعمال اور فائدے کے لیے سرکاری خزانے کے غلط استعمال کی بھی تحقیقات کرے گا۔ جبکہ سرکاری خزانے سے ذاتی بیرونی دوروں، بیرون ملک علاج کے اخراجات، اعلیٰ حکام کے نجی گھروں کو کیمپ آفسز ڈکلیئر کرکے سڑکوں اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کی بھی تحقیقات ہوں گی۔
مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز کی یہ بے بسی بھی ہے کہ وہ ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے سات سال قید اور جرمانے کی سزا پاکر مجرمہ قرار پاچکی ہیں۔ اس لیے وہ فی الحال پارٹی کا کوئی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتیں اور نہ ہی حکومت کے خلاف کوئی مہم کا باقاعدہ حصہ بن سکتی ہیں۔ لیکن یہ اور بات ہے کہ ہمارے ملک میں سزائیں معطل بھی ہوجاتی ہیں اور مجرمان قید سے رہائی بھی پالیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری تو پاکستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر مرکزی لیڈر ہونے کے باوجود اپنے اوپر کرپشن کا الزام لے بیٹھے ہیں۔ نیب ان کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس میں تحقیقات کررہی ہے۔
وطن عزیز کے لیے انتہائی شرم کی بات تو یہ ہے کہ اس کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری دونوں ہی ان دنوں جیل میں ہیں۔ آصف زرداری تو خود اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ: ’’ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں‘‘۔ جبکہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ تخلیق کرنے والے میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپنے اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی کرچکے ہیں۔ ایسا کرکے انہوں نے اپنے ووٹرز کی کو نہیں بلکہ پورے ایوان کو دھوکا دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے سیاست دانوں کو مزید سیاست کرنے اور عوام پر مسلط ہونے کا موقع دیا جانا چاہیے؟
حکومت کے منفی اقدامات مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف جماعت اسلامی نے اتوار سے ملک گیر تحریک شروع کردی ہے۔ یہ موومنٹ دراصل عوام کے حقوق کی اصل تحریک ہے۔ جماعت اسلامی کی تحریک کا مقصد اپنے کسی لیڈر کو کرپشن اور دیگر الزامات پر گرفتاری سے بچانا ہے اور نہ کسی کو جیل سے رہائی دلانا ہے۔ جماعت اسلامی تو کرپٹ عناصر کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والی پہلی سیاسی جماعت ہے۔ اس لیے قوم کواس موقع پرسوچنا ہوگا کہ کون سی سیاسی جماعت خالصتاً عوام کو ان کے حقوق دلانے کے لیے عملی جدوجہد کررہی ہے اور کون کون سی جماعتیں ذاتی مفادات کے حصول کے لیے عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے مجبور کررہی ہیں ؟۔