چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

317

 

 

آصف علی زرداری نے کوشش تو بہت کی کہ کسی طرح پھندے میں نہ آئیں۔ حکومت پر سیاسی دبائو بڑھایا، نیب کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ایک باخبر کالم نگار کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ایک مقتدر شخصیت سے ملاقات بھی کی لیکن ان کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے اتنے ناقابل تردید ثبوت ہیں اور خود ان کے فرنٹ مین ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ چن چکے ہیں کہ ان کی کوئی سعی کامیاب نہ ہوسکی اور نہ صرف وہ دھر لیے گئے بلکہ ان کی بہن فریال تالپور صاحبہ بھی گھر میں نظر بند کردی گئی ہیں کہ وہ بھی منی لانڈرنگ میں ان کی شریک کار رہی ہیں۔ جیل آصف زرداری کے لیے کوئی اجنبی جگہ نہیں وہ کرپشن کے الزام میں بارہ سال تک جیل بھگت چکے ہیں لیکن یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ’’آتش جواں‘‘ تھا، اعصاب مضبوط اور آنکھوں میں چمک تھی، وہ اس بات کو جانتے تھے کہ انہوں نے جس بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی ہے اور ناجائز مال کمایا ہے اس کا ایک فی صد جیل کے عملے اور عدالتی اہلکاروں پر خرچ کرکے قید میں بھی آزادی کا لطف اُٹھایا جاسکتا ہے۔ چناں چہ انہوں نے اس گُر سے پورا فائدہ اٹھایا اور ٹھاٹ سے ’’قید‘‘ کاٹی۔ انہوں نے اندر خانہ وہ کام کیا کہ ان پر کرپشن کے سارے مقدمات غیر موثر ہوگئے اور احتساب عدالت نے انہیں باعزت بری کردیا۔ لیکن اب کی دفعہ زرداری جیل جانے سے گھبرا رہے تھے، ان کی عمر اگرچہ زیادہ نہیں ہے لیکن اعصاب مضمحل ہوگئے ہیں، ہاتھ میں رعشہ آگیا ہے، سر کے بال سفید ہونے کے بجائے جھڑ گئے ہیں اور ان میں وہ اعتماد باقی نہیں رہا جو پہلے پایا جاتا تھا۔ آدمی اپنی چالاکی سے ناجائز دولت کما تو لیتا ہے لیکن اسے سنبھالنا اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ زرداری کے ساتھ بھی ہوا۔ دولت کے ڈھیر کی حفاظت اور مزید کی ہوس نے ان کی صحت برباد کردی۔ چناں چہ نیب نے جب انہیں پکڑ اتو وہ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح اس کے ساتھ ہولیے۔ ان کا طبی معائنہ کرایا گیا اور ڈاکٹروں نے انہیں بالکل صحت مند قرار دیا لیکن دوسرے ہی دن انہیں سینے میں شدید درد کی شکایت ہوگئی اور انہیں ادارہ امراض قلب لے جانا پڑا جہاں ان کے مختلف ٹیسٹ لیے گئے۔ زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ گرفتار تو ہوئی ہیں لیکن ان کے ساتھ محض ضابطے کی کارروائی کی گئی ہے اور انہیں گھر سے باہر آنے سے روک دیا گیا ہے۔ زرداری کی خواہش بھی یہی ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسی ہی ضابطے کی کارروائی کی جائے اور اسلام آباد میں زرداری ہائوس کو ان کے لیے سب جیل قرار دے دیا جائے تا کہ وہ اپنی نظر بند بہن کے ساتھ قید کے دن گزار سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مقتدر قوتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہیں وفاداری کی یقین دہانی کے ساتھ اپنے لیے یہ رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ قدرت آدمی کو اصلاح کا موقع پہ موقع دیتی رہتی ہے لیکن جب وہ ان موقعوں سے فائدہ نہیں اُٹھاتا تو پھر وہ اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ زرداری پر قسمت کی دیوی اس وقت مہربان ہوئی تھی جب بے نظیر بھٹو ان کے حبالہ عقد میں آئی تھیں۔ وہ چاہتے تو بین الاقوامی شہرت کی حامل اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک صاف ستھری سیاسی زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے کرپشن کی گنگا میں نہانا اور ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ بننا پسند کیا۔ یہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار کی کہانی ہے، پھر جب بے نظیر بھٹو دوبارہ برسراقتدار آئیں تو زرداری اپنی اصلاح کرنے کے بجائے وائٹ کالر جرائم کی دنیا میں ترقی کرکے ’’مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ‘‘ بن گئے اور اقتدار کے سایے میں اتنی لوٹ مار کی کہ پاکستان کی تاریخ میں ان کا نام گونجنے لگا۔ لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ سینما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والا شخص اپنی اہلیہ کے اقتدار کے سایے میں دیکھتے دیکھتے کھرب پتی بن گیا ہے اور قانون اس کا کچھ بگاڑنے سے قاصر ہے۔ وہ قانون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قید میں بھی آزادی کے مزے لوٹتا رہا۔ خیر وہ زمانہ گزر گیا، بے نظیر بھٹو اقتدار سے بے دخل ہو کر جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں، واپس آئیں تو بھرے مجمع میں سفاک قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئیں۔ زرداری بیرون ملک تھے، اگر بے نظیر بھٹو کی قسمت یاوری کرتی اور وہ قتل ہونے کے بجائے پاکستان کی تیسری بار وزیراعظم بن جاتیں تو شاید زرداری بیرون ملک ہی رہتے کہ وہ اب اپنے شوہر کے ہاتھوں مزید رسوا ہونے کو تیار نہ تھیں لیکن شومئی قسمت تخت اقتدار پر بیٹھنے کے بجائے قبر میں جا لیٹیں اور زرداری کی لاٹری نکل آئی۔ وہ شتابی سے پاکستان پہنچے اور مقتولہ کی مبینہ وصیت کے مطابق پیپلز پارٹی کے سربراہ بن گئے۔ انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا، چناں چہ پیپلزپارٹی مظلومیت اور ہمدردی کا ووٹ لے کر وفاق اور سندھ میں برسراقتدار آگئی۔ زرداری چاہتے تو وزیراعظم بن سکتے تھے لیکن انہوں نے ملک کے بلند ترین منصب پر بیٹھنا پسند کیا اور جنرل پرویز مشرف کو اپنی چالاک سیاست کے ذریعے بے دخل کرکے صدر بن بیٹھے۔ قدرت نے انہیں اپنی اصلاح کا نادر موقع دیا تھا کہ وہ مال کی ہوس میں مبتلا ہونے کے بجائے ملک و قوم کی خدمت پر توجہ دیتے۔ انہوں نے جتنی دولت جمع کرلی تھی وہ ان کی کئی نسلوں کے لیے کافی تھی لیکن جیسا کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ آدمی کی ہوس ختم نہیں ہوتی اسے سونے کی ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرتا ہے۔ دوسری مل جائے تو تیسری کے لیے بے چین ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ قبر میں جا لیٹتا ہے (اوکماقال) یہی حال زرداری کا تھا وہ صدر بننے کے بعد بھی مال بنانے اور اسے باہر بھیجنے میں لگے رہے۔ ماڈل گرل ایان علی ہر ہفتے ڈالروں سے بھرا ہوا بریف کیس لے کر دبئی جاتی تھی اور ایوان صدر کا ایک کارندہ ائرپورٹ پر اس کی کلیئرنس میں مدد کرتا تھا۔ زرداری صدارت سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے سندھ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنالیا اور اتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی کہ سندھ کھوکھلا ہو کر رہ گیا۔
ہم نے زرداری کا یہ کچا چٹھا اس لیے بیان کیا ہے کہ وہ کرپشن کی تاریخ میں سپر مین کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب وہ پکڑے گئے ہیں تو ہماشما کا ذکر ہی کیا۔ جن لوگوں نے اقتدار کے سایے میں پناہ لے رکھی ہے وہ بھی جلد یا بدیر پکڑے جائیں گے کہ یہی ہئیت مقتدرہ کا فیصلہ ہے۔
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی نہیں