محمد مرسی، ضرورتوں اور خوف کا قتیل

400

مسلمانوں پر ہمیشہ مغرب کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ جمہوری مزاج نہیں رکھتے اسی لیے وہ جمہوریت کو قبول نہیں کرتے۔ دوسرے لفطوں میں کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا مزاج جمہوریت سے لگا نہیں کھاتا۔ الجزائر کے بعد مصر میں مغرب کی سرپرستی میں مغربی جمہوریت کے ساتھ جو ہوا وہ ایک ناراض اور باغی مسلم نوجوان کو باورکرانے کے لیے کافی ہے کہ مغربی جمہوریت ان کے لیے بنی ہی نہیں ۔یہ ایک مخصوص کلچر کی دین ہے اور اسی کلچر میں زندہ رہتی ہے اور اپنے پھلنے پھولنے کے لیے ایک مخصوص کلچر کی تمنائی اور محتاج ہوتی ہے۔مغربی جمہوریت کو اپنانے کے لیے کسی بھی آبادی کے لیے ایک مخصوص حلیہ اور وضع قطع اپنا نا لازمی ہے۔ ایک مخصوص نظریے کی مالا جپنا ضروری ہے۔ اس معیار سے ہٹ کر جو جمہوریت آئے گی وہ قابل قبول نہیں ہو گی ۔مصر کی تاریخ کے پہلے اور آخری منتخب جمہوری حکمران محمد مرسی عدالت میں پیشی کے موقع پر انتقال کر گئے ۔عالم اسلام میں یہ خبر انتہائی رنج وغم کے ساتھ سنی گئی ۔محمد مرسی جدید مسلم دنیا کی اولین اسلامی تحریک اخوان المسلمین سے تعلق رکھتے تھے ۔اس تنظیم کی بنیاد مصر کے انقلابی مفکر حسن البنا شہید نے رکھی تھی اور سید قطب جیسے نابغۂ روزگار قلم کار،دانشور اور مصنف نے اس تحریک کی فکری آبیاری کی تھی ۔جب یہ تحریک شروع ہوئی تو عالم اسلام بدترین افراتفری ،انتشار اور غلامی کا شکار تھا۔ مسلمان صلیبی جنگوں اور اسپین کے حالات کی چکی میں پس رہے تھے ۔مغربی استعمار اور یورپ عالم اسلام کو کیک کی طرح ٹکڑوں میں بانٹ کر ہضم کر رہا تھا ۔ان کی تہذیب کا جنازہ نکالنے کا عمل زوروں پر تھا ان کے نظریات سرقہ بازوں کی زد میں تھے ۔ان کے نظریے میں قطع وبرید کی کوششیں جاری تھیں ۔مسلمان مغرب سے مشرق تک مایوسی اور انتشار کا شکار تھے ۔اسلام کو ایک زندہ وجاوید اور متحرک نظریے کے بجائے چند عبادات اور رسوم کا حامل منجمد مذہب بنانے کی کوششوں زوروں پر تھیں۔ منظم مہم کے تحت مسلمانوں کا اپنے ماضی سے شرمندہ اور نادم کیا جا رہا تھا۔انہیں ذہنی اور فکری طور پر کنفیوژن کا شکار کرنے کے لیے مختلف فتنے کھڑے کئے جا رہے تھے۔ عرب اس جارحانہ سوچ کا اصل ہدف اورمرکز تھا۔مسلمانوں کو آج کی طرح جہادی، اجڈ، قاتل اور جدیدیت کا دشمن ثابت کیا جا رہا تھا۔اس ماحول میں مصر کے امام حسن البنا نے اخوان المسلمین کے نام سے اصلاحی تحریک کا بنیاد رکھی۔اس تحریک کو سید قطب اور زینب الغزالی جیسی اولو العزم شخصیات کی حمایت حاصل ہوئی۔ اخوان المسلمین نے مسلمانوں کے زوال کی وجوہات کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا دوٹوک اعلان کیا کسی بھی جدید ریاست کو اسلام کے اصولوں کے تحت کامیابی کے ساتھ چلا یا جا سکتا ہے
اور یہ کہ اسلام دو ر حاضر کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔مغرب نے ان نظریات کو پولیٹیکل اسلام کا نام دے کر رکاوٹوں اور معاندانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا ۔امام حسن البنا کو شہید کیا گیا ،سید قطب کو پھانسی دی گئی اور اخوان المسلمین کو پابندیوں کا شکار کیا گیا۔ مدتیں اسی ابتلاو آزمائش میں گزر گئیں ۔مغرب نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے عرب حکمرانوں کو بے رحمی سے استعمال کیا ایک کے بعد دوسرا جلاد آتا اور رخصت ہوتا رہا اخوان پر ابتلاوآزمائش کا موسم بدستور سایہ فگن رہا ۔زنجیر ان کے بازوئوں میں کھنکتی رہی اور جیلوں اور عقوبت خانوں کی رونقیں انہی کے دم قدم سے بحال رہیں۔جمال عبدلناصر ،انورالسادات اور حسنی مبارک جیسے حکمران آتے اور جاتے رہے مگر اخوان المسلمین پر جبر کا کوڑا برستا رہا ۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا نے عرب اسپرنگ برپا کی ۔مغرب کو عرب دنیا میں جمہوریت کا سودا بیچنے کا خیال آگیا مگر مغرب کی مشکل یہ تھی کہ بوڑھے عرب حکمرانوں کا متبادل اگر جمہوریت تھی تو جمہوریت اور جدوجہد کا میدان اخون المسلمین جیسی تنظیموں کے ہاتھ میں تھا۔یہ مغرب کے لیے ایک امتحان تھا کہ وہ وقت گزیدہ اور دولت پرست عرب حکمرانوں کے مقابلے میں عرب دنیا کی زمینی حقیقت کو من وعن قبول کرتے ہیں یا ان کے اندر کا خوف اورماضی کا جوش اُبل کر یہاں بھی کوئی فاول پلے کرتا ہے ۔افسوس کہ مغرب نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا ۔ اس خوف اور تضاد میں مصر میں پہلے آزادانہ انتخابات کا معرکہ اخوان نے جیتا اور محمد مرسی مصرکے پہلے منتخب صدر قرار پائے ۔محمد مرسی نے بہت خاموشی کے ساتھ مصر میں دستور کو اسلامی بنانے اور مصر کو سیکولرازم سے دوبارہ اسلام کی طرف لانے کا کام شروع کیا اور ان کے جلسوں میں برملا الجہاد سبیلنا اور عربوں کی مشترکہ یونین کی بات ہونے لگی جو ظاہر ہے اسرائیل کو گوارا نہیں تھی ۔اسرائیل اپنے پہلو میں ایک ٹھیٹھ اسلامی ریاست کا وجود کیونکر گوار ا کرسکتا تھا ۔اس لیے محمد مرسی کے خلاف ایک سال کے اندر اندر سازشوں کا جال بنا جانے لگا ۔بدقسمتی سے کئی مسلمان ممالک بھی اس سازش میں شریک ہو گئے اور یوں ایک روز فوج نے جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں محمد مرسی کا تختہ اُلٹ کر مصر میں جل اُٹھنے والا جمہوریت کا چراغ گل کر دیا ۔اخوان پر مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ان کے پرامن مظاہرین کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا ۔محمد مرسی کو پہلے سزائے موت پھر عمر قید ہوگئی اور پانچ سال سے وہ نہایت جرات اور پامردی کے ساتھ زنداں میں حالات کا مقابلہ کررہے تھے۔ محمد مرسی ایک جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمان رہنما تھے۔ انہوں نے امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی مگر ان کے نظریات امریکا کو گوارا تھے نہ اسرائیل کے لیے قابل قبول۔ سب ضرورتیں اور خوف یکجا ہوئے ۔پہلے محمد مرسی کی حکومت اور آخر کار ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا یوں مصر ہی نہیں عالم اسلام اتحاد بین المسلمین کے علمبردارایک جدید اور بے باک قائد سے محروم ہو گیا ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را