مذہب‘ سائنس اور اردو

370

اکرام سہگل صرف کالم نگار نہیں۔ وہ ریٹائرڈ فوجی بھی ہیں۔ یعنی کریلا اور نیم چڑھا۔ عام طور پر وہ دفاعی امور کے بارے میں تجزیے کرتے ہیں۔ ان کے یہ تجزیے پڑھ کر خیال آتا ہے کہ وہ یا تو پاکستان میں امریکا کی کھڑکی ہیں یا امریکا میں پاکستان کی کھڑکی۔ بدقسمتی سے انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں مذہب، سائنس اور علما کے باہمی تعلق پر بھی اپنے ’’زریں خیالات‘‘ کا اظہار کیا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے سابق مشرقی پاکستان پر اردو اور شلوار قمیص کو ’’مسلط‘‘ کرنے پر بھی گفتگو کر ڈالی ہے۔
اکرام سہگل نے اپنے کالم میں ایک اصولی بات یہ کہی ہے کہ پورے ملک میں ایک عید کا ہونا ضروری نہیں۔ اس لیے کہ یہ دین کا تقاضا نہیں۔ یہ بات اصولی اعتبار سے درست ہے۔ مگر اکرام سہگل اس سلسلے میں ’’ملک‘‘ کے بجائے ’’امت‘‘ کا لفظ استعمال کرلیتے تو اچھا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امت کا ’’جغرافیائی اُفق‘‘ بہت وسیع ہے۔ چناں چہ ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ اور پاکستان میں دو مختلف دنوں میں عید منائی جائے۔ البتہ پاکستان کا رقبہ صرف 8 لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ اتنے چھوٹے سے رقبے کا ’’افق‘‘ روس، کینیڈا، امریکا یا امت کے افق کی طرح وسیع یا کشادہ نہیں۔ چناں چہ اصولی اعتبار سے رمضان، عیدالفطر یا عیدالاضحی ایک ہی دن ہونی چاہیے۔ مگر مفتی پوپلزئی جیسے کردار ایسا نہیں ہونے دیتے۔ خیر یہ تو ایک طویل جملہ معترضہ تھا۔ اب آتے ہیں اکرام سہگل صاحب کے اصل نکات کی جانب۔ اپنے کالم میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔
’’تاریخ اسلام میں نویں اور تیرہویں صدی کے درمیان ایک دور ایسا بھی تھا جب اسلامی دنیا سائنسی تحقیق میں قائدانہ کردار ادا کررہی تھی اور ان تحقیقات کو بروئے کار لانے سے دنیا کی غالب قوت بن چکی تھی۔ پورے مسیحی یورپ سے طالبانِ علم طب، فلکیات، طبیعیات اور دیگر سائنسی علوم کا مطالعہ کرنے قرطبہ و بغداد، قاہرہ و اصفہان آتے تھے۔ جب سائنس کی افادیت پر شک کرنے والوں کو برتری حاصل ہونا شروع ہوئی تو اسلامی دنیا زوال کا شکار ہوگئی اور یورپ کلیسا کی زنجیروں سے خود کو آزاد کرکے سائنس میں برتری لے گیا۔ اکیسویں صدی میں اس بات پر اصرار کرنا کہ اسلام پر عمل کرنے کے طریقے کے حوالے سے سائنس کی کوئی اہمیت نہیں، ملا حالات کو اسی نہج پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 12 جون 2019)
رسول اکرمؐ کے ایک ارشاد کے مطابق مسلمانوں کا بہترین زمانہ رسول اکرمؐ کا زمانہ ہے۔ دوسرا بہترین زمانہ خلفائے راشدین کا عہد ہے۔ اکرام سہگل اور ان جیسے سیکولر اور لبرل عناصر ذرا بتائیں تو رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں کون سی سائنس اور ٹیکنالوجی موجود تھی جس کے سہارے مسلمان ’’عروج‘‘ اور ’’عظمت‘‘ کی طرف جارہے تھے؟۔ اتفاق سے خلافت راشدہ کے بہترین زمانے میں بھی مسلمانوں کے پاس کوئی سائنس اور کوئی ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ مگر مسلمانوں کی قوت اور شوکت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کی قیادت میں وقت کے دو سپر پاورز یعنی سلطنت روما اور ایران کو زمین بوس کردیا۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سلطنت روما کے خلاف معرکے میں سلطنت روما کے پاس ڈیڑھ لاکھ سپاہی تھے اور مسلمانوں کا لشکر 20 سے 25 ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ ایران میں بھی طاقت کے عدم توازن کا یہی حال تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا مسلمانوں کے عروج و زوال سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں اقبال کا ایک شعر یاد آیا۔
سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اقبال کہہ رہے ہیں مسلمانوں کا زوال زر سے محرومی کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ اس زوال کی وجہ کچھ اور ہے اور مسلمان اس وجہ کو خود جانتے ہیں۔ اتفاق سے ہمارے زمانے میں افغانستان کے اندر وقت کی دو سپر پاورز کے خلاف معرکہ برپا ہوا اور اس معرکے میں مسلمانوں نے ایک بار پھر دونوں سپر پاورز کو شکست دی۔ مسلمانوں کی ان فتوحات میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا کوئی کردار نہیں۔ جس طرح سلطنت روما اور سلطنت ایران کے خلاف مسلمانوں کی فتح ان کے ایمان شوق شہادت کا حاصل تھی اسی طرح سوویت یونین اور امریکا کے خلاف بھی مسلمانوں کی فتح کا ’’راز‘‘ ان کا ’’ایمان‘‘ اور ان کا جذبہ جہاد اور شوق شہادت ہے۔ چناں چہ اب یہ ٹیں ٹیں بند ہونی چاہیے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کوئی بہت ہی بڑی چیز ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ کہ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف ہیں؟ ہرگز نہیں۔ مسلمان نہ رسول اکرمؐ کے زمانے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف تھے، نہ خلافت راشدہ میں انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف مہم چلائی ہوئی تھی، نہ آج مسلمانوں کا کوئی بڑا عالم یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی پر تھوک دینا چاہیے۔ البتہ مسلمان ’’سائنس کی خدائی‘‘ کے نہ پہلے قائل تھے، نہ اب ہیں اور نہ کبھی ہوں گے۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر یاد آگیا۔
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
اکرام سہگل صاحب اپنی اصل میں ایک ’’مغربی انسان‘‘ ہیں۔ چناں چہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ 20 ویں صدی میں مغرب کا سب سے بڑا مورخ ٹوائن بی ہوا ہے اور ٹوائن بی نے اپنے ایک مکالمے میں صاف کہا ہے کہ مغربی تہذیب کو نئی زندگی صرف اس صورت میں فراہم ہوسکتی ہے جب وہ اپنے اندر کسی نہ کسی قسم کی روحانیت داخل نہ کرلے اور ٹیکنالوجی کے عشق سے جان چھڑائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹوائن بی کے نزدیک جدید مغربی تہذیب کے زوال یا بیماری میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا بنیادی کردار ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ٹوائن بی جیسا مدبر دنیا کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے عشق کے مضمرات سے ڈر رہا ہے اور اکرام سہگل جیسے لوگ مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ’’عبادت‘‘ پر مائل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ اکرام سہگل نے اپنے مذکورہ بالا اقتباس میں امام غزالی کو گالی نہیں دی۔ ورنہ مغرب کے دانش وروں کا اگلا ہوا نوالہ چباتے ہوئے پرویز ہود بھوئے جیسے لوگ امام غزالی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ لیکن چوں کہ اکرام سہگل نے تیرہویں صدی کی مسلم دنیا کا ذکر کیا ہے اور تیرہویں صدی کی مسلم دنیا غزالی کے زیر اثر تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اکرام سہگل بھی غزالی کی فکر کو مسلمانوں کے زوال کا سبب سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ غزالی کا ’’جرم‘‘ اتنا ہے کہ انہوں نے مغربی فلسفے کو اس کے علم کے دائرے میں رہتے ہوئے رد کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ غزالی نے یہ کام کسی حکومت، ریاست یا فوج کے ذریعے نہیں کیا۔ یہ کام انہوں نے ’’علم‘‘ اور ’’دلیل‘‘ کے ذریعے کیا۔ اتفاق سے مسلمانوں نے غزالی کے علم اور غزالی کی دلیل کو سینے سے لگالیا اور ابن رشد کی فکر سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ غزالی اور ابن رشد کا معرکہ فکری تھا مگر ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر فکری معرکے میں غزالی کی فتح پر ماتم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غزالی نے مسلمانوں کو ’’ترقی کا دشمن‘‘ بنایا۔ اس ترقی کا دشمن جس نے یورپ سے خدا، رسالت اور مذہب چھین لیا۔ اب آئیے اکرام سہگل کے دوسرے نکتے کی جانب۔ فرماتے ہیں۔
’’پشاور میں ایک بار پھر دو عیدیں ہوئیں اور دونوں امن سے گزر گئیں۔ پاکستان (اور شاید کچھ دیگر مقامات پر بھی) لوگوں میں اتحاد قائم کرنے کے نام پر یکسانیت تھوپنے کا افسوسناک رجحان پایا جاتا ہے۔ اس رجحان کا نقصان پاکستان پہلے بھی اُٹھا چکا ہے۔ 1971ء میں آدھا ملک گنوادیا گیا کیوں کہ مرکزی حکومت نے قوم کو متحد کرنے کی کوشش میں اردو کو پورے ملک کی واحد قومی زبان اور شلوار قمیص کو واحد قومی لباس قرار دیا۔ نیز ثقافتی، سماجی اور معاشی طور پر متنوع ملک کی حکمرانی کو مرکوز کردیا۔ آج تک ہم نے اپنی ہی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 12 جون 2019ء)
اکرام سہگل کو ’’یکسانیت‘‘ یا ’’وحدت‘‘ سے اتنی ہی چڑ ہے اور تنوع کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر عرض ہے کہ ملک کو ’’ایک فوج‘‘ اور ’’ایک وفاقی حکومت‘‘ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ کیوں نہ تمام صوبے اپنی اپنی فوج بنالیں اور اعلان کرادیں کہ پاکستان آج سے ’’فیڈریشن‘‘ نہیں کنفیڈریشن ہے۔ پاکستان میں ایسے عناصر پہلے سے موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان اصل میں فیڈریشن تھا ہی نہیں یہ تو کنفیڈریشن تھا۔ اس سلسلے میں وہ پاکستان کے بانیوں کی جانب سے تیار کیے گئے ایک ’’ڈرافٹ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں جس میں ’’State‘‘ کے بجائے ’’Stats‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو اردو کسی نے مشرقی پاکستان پر ’’مسلط‘‘ نہیں کی تھی۔ اردو برصغیر میں رابطے کی زبان تھی۔ اردو پاکستان میں رابطے کی زبان تھی۔ اردو تحریک پاکستان کی زبان تھی۔ اردو خود پاکستان کی زبان تھی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اردو برصغیر کی مشترکہ تہذیب اور مشترکہ تاریخی تجربے کا مرکزی نکتہ تھی اور مذہب کے بعد پاکستان کی تخلیق میں اس کا بڑا اہم کردار تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ قائد اعظم کی مادری زبان گجراتی تھی۔ ان کا ذریعہ تعلیم انگریزی تھا۔ وہ اردو کا رسم الخط نہیں پڑھ سکتے تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے صاف کہا کہ پاکستان کی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سیکولر اور لبرل لوگوں کو قائد اعظم کا من گھڑت سیکولر ازم تو بہت عزیز ہے مگر اردو کی بات آتی ہے تو سارے سیکولر اور لبرل ایک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اردو کے سلسلے میں قائد اعظم سے غلطی ہوئی۔ کتنی عجیب بات ہے مشرقی پاکستان کے بعض حلقوں نے اردو کے سلسلے میں قائد اعظم کی بات تو نہ مانی مگر اب وہ چالیس سال سے بھارت کی فلموں کے عشق میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے بھارت کی فلموں کے 99 فی صد گیت اردو میں ہوتے ہیں۔ بھارتی فلموں کے مکالمے 80 فی صد اردو میں ہوتے ہیں۔ آخر بنگلادیشی یہ کہہ کر ان فلموں کو دیکھنا کیوں بند نہیں کردیتے کہ ان کا سب کچھ اردو میں ہوتا ہے۔ یہ اور بات کہ بھارت اپنی کم ظرفی کی وجہ سے اپنی اردو فیچر فلموں کو ’’ہندی فیچر فلم‘‘ کہتا ہے۔