پارلیمنٹ منتخب جمہوری نمائندوں کے درمیان بحث وتمحیص اور قوانین کی تیار ومنظوری کا ادارہ ہوتا ہے ۔جس میں اہم قومی مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا جاتا ہے ۔دنیا میں بارہا یہ دیکھا گیا ہے کہ بحث تکرار میں ڈھل کر جذبات کے پیمانے سے چھلک پڑتی ہے اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے مگر یہ اس فورم کا ناپسندیدہ استعمال سمجھا اور مانا وجانا جاتا ہے۔عوام اپنے منتخب نمائندوں کی زبان سے بڑھ کر ہاتھ کے استعمال یا زبان کے استعمال میں غیر محتاط رویوں کو پسند نہیں کرتے ۔میڈیا بھی ایسے رویوں کا ناقد ہوتا ہے اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو اب عام آدمی براہ راست اپنے جذبات و احساسات کا برملا اظہار کرکے اسے ہزاروں افراد تک پہنچانے کی پوزیشن میں آگیا ہے ۔گویا کہ جن رویوں پر چوپالوں ،دالانوں اور قہوہ خانوں میں بیٹھ کر لوگ اچھے یا برے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اب ان سب بیٹھکوں کی جگہ فیس بک ،ٹویٹر ،واٹس اپ وغیرہ نے لی ہے ۔اس طرح عام آدمی کی صورت میں عوامی نمائندوں کے لیے ایک نیا اور مضبوط ناقد سامنے آگیا ہے۔پہلے تو اپنے حلقہ ٔ انتخاب سے دور عوامی نمائندے کی کسی حرکت پر عوام کے جذبات نمائندے تک براہ راست پہنچ ہی نہیں پاتے تھے مگر اب سوشل میڈیا بلکہ موبائل کے ذریعے عوام اپنے جذبات لمحوں میں نمائندے تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس تبدیلی نے عوامی نمائندوں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ان کے لیے اپنے کردار اور اخلاق کو مزید کمپوزڈ اور تہذیب کے دائروں کے اندر رکھنا ضروری ہو گیا ہے ۔پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت احتجاج در احتجاج اور بلند آہنگ الزامات اور اعلانا ت کے ذریعے سیاست کے تالاب میں بھرپور ارتعاش پید ا کرنے کے بعد قائم ہوئی تھی اسی لیے یہ صاف نظر آرہا تھا کہ اس پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک بپھری ہوئی اپوزیشن ملے گی جو جاو بے جا احتجاج اور غصے کا اظہا کرکے حکومت کی راہوں میں کانٹے بچھاتی جائے گی ۔خود حکومت بھی ابھی تک اپنے مزاج کو بدلے ہوئے حالات اور حقائق سے آشنا نہیں کر سکی۔ صاف انداز میں بات کی جائے تو حکومت خود کو بدستور اپوزیشن سمجھ کر معاملات چلانے کی روش پر گامزن دکھائی دیتی ہے۔ اپوزیشن کا کام ہی شور وغل کرنا ہے اور یہ شور وغل نہ کرکے اپوزیشن ایک اہم ذمے داری سے غفلت کی مرتکب ہوتی ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے اس ذمہ داری کو مفاہمتوں اور میثاقوں کی نذ ر کرکے سیاست میں خلا پیدا کرنے کی جو بھیانک غلطی کی تھی اسی کا نتیجہ عمران خان کے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے اور اس کے نتائج کی صورت میں انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس سے تو 90ء کی دہائی ہی ٹھیک تھی دونوں لڑتے لڑتے حکومتیں بھی تڑوابیٹھتے تھے مگر پھر باریاں بدل دونوں اقتدار میں بھی آتے
تھے اور اس میں کھیل میں خلا تلاش کرنے والے نامی گرامی سیاست دان تاک جھانک کر کے پیچھے ہٹ جاتے تھے ۔مگر دوہزاری کی دہائی میں جب دونوں بڑی جماعتیں مفاہمت کے تحریری معاہدوں تک پہنچیں تو ’’تیسری قوت ‘‘کا مذاق ایک سنجیدہ حقیقت بنتا چلا گیا۔ 90ء کی دہائی میں تیسری قوت کی بات کرنے اور دعویٰ کرنے والے سیاست دانوں کا یہ دونوں بڑی جماعتیں اور ان کا ہمنوا میڈیا اس قدر مذاق اُڑاتا تھا کہ خد اکی پناہ ۔ان کا خیال تھا کہ ملک مدتوں دوجماعتی نظام کے کولہو کا بیل بنا یونہی گردش کرتا چلا جائے گا ۔وقت کچھ اس انداز سے پلٹ گیا کہ کل کا مذاق ایک حقیقت بنتا چلا گیا ۔یہاں تک کہ تیسری قوت گرتے پڑتے اقتدار کی مسند کے قریب پہنچ گئی ۔یہ انہونی اپوزیشن کی طرف سے اپنا رول ادا نہ کرنے کے باعث ہو کر رہی۔ اس لیے اب بھی حکومت کو اپوزیشن کو گونگا بہرہ بنانے اورمفاہمت کی زنجیر میں باندھنے کی بجائے دل کی بھڑاس اور صحیح اور غلط کی نشاندہی کے لیے آزاد چھوڑنا چاہیے۔ حکومت وقت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک ایسی اپوزیشن ملی ہے جو اپنے ماضی کے بوجھ کے باعث کمر خمیدہ ہے۔حکومت اس کی ہر تنقید کا وار ماضی کے حوالے دے کر انہی پر اُلٹ دیتی ہے۔ یہ معاملہ زیادہ دیر تک اس لحاظ سے چلتا دکھائی نہیں دیتا کہ آخر کار ماضی عوام کی لوح ِ حافظہ سے محو ہوتا جا ئے گا اور ان کی نظریں اور یادداشت صرف لمحہ موجود میں ہی گھومتی چلی جائے گی۔ ایسے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمانی آداب کو ملحوظ رکھنے کے معاہدے کی خبریں سامنے آئیں۔ وفاقی وزیر شفقت محمود نے قوم کو یہ مژدہ سنایا اور بجٹ پر بحث کے آغاز سے اس معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ایک طویل خطاب میں جم کر حکومت پر تنقید کی مگر انہوں نے اخلاقیات کا دامن سختی سے تھامے رکھا۔ ان کی تقریر کے دوران حکومتی بینچوں سے اِکا دُکا آوازیں تو بلند ہوتی رہیں مگر مجموعی طور پر ماحول پرسکون اور سنجیدہ رہا۔ ان کا جواب وفاقی وزیر عمر ایوب نے اسی قدر جم کر نکتہ وار اور طوالت کے ساتھ دیا۔ حکومت نے کچھ خطاب ایوان میں سنااور ظاہر ہے باقی چیمبر میں سنا ہوگا۔ شنید ہے کہ اسی معاہدے کے تحت وزیر اعظم عمران خان بھی بجٹ اجلاس سے خطاب کریں گے۔پارلیمنٹ اپنے قیام کے مقاصد کو پورا نہ کرے تو اپنے وجود کا جواز کھو دیتی ہے۔ ہاتھاپائی ،دھینگا مشتی اور دشنام واتہام کے لیے گلی کوچے پڑے ہوتے ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے کردار اور رویوں سے پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام کی اُلٹی گنتی کا کام دے رہے تھے۔ انہیں شاید احساس ہی نہیں تھا کہ وہ جس شاخ پر ان کی سیاست اور کروفر کا آشیانہ قائم ہے نادانستگی یا فریق مخالف کی ضد میں وہ اسی کو کاٹ رہے ہیں۔اپوزیشن کی تو بات ہی کیا حکومت کو بھی یہ سمجھانے کی ضرورت تھی کہ پارلیمانی نظام میں تو ان کے لیے راستہ بنتا چلا گیا مگر اس نظام کے بعد کسی نئے انداز اور نئے سسٹبندوبست میں ان کے واپس آنے کی ضمانت بھلا انہیں کسی نے دی ہے ؟۔