آدھی رات کا خطبہ اور کمیشن کا قیام

222

 

 

میرے پاکستانیو! تحریک انصاف کی حکومت نے جب سے وزرا اور مشیروں کی نئی ٹیم بنائی ہے اپوزیشن کو بڑی تکلیف ہے۔ وہ کہتے ہیں ایک آنکھ بند کرو تو پرویز مشرف اور دوسری آنکھ بندکرو تو پیپلز پارٹی کی ٹیم نظر آتی ہے۔ میرے پاکستانیو! یہ اس زمانے کے لوگ ہیں جب سینمائوں میں ایک ٹکٹ میں دو فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ ایک ٹکٹ میں دومزے۔ ان کو آج بھی ایک کے دو نظر آتے ہیں۔ یہ ٹکے ٹکے کے لوگ ہیں جو سستے سینما گھروں میں ٹوٹے دیکھتے پھرتے تھے آج حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ انہیں یہ نہیں پتا جب نواز شریف ایک ارب ڈالر قرض لیتا تھا تو پاکستان کو سو ارب روپے ملتے تھے اب تحریک انصاف کی حکومت ایک ارب ڈالر قرض لیتی ہے تو سو ارب 57کروڑ روپے ملتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کہا کرتی تھیں جس نے پیپلز پارٹی چھوڑی وہ دنیا اور آخرت میں ذلیل اور رسوا ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ملیں تو بو لیں خان صاحب آپ نے میرا قول غلط ثابت کردیا ہے جب سے میں نے تحریک انصاف جوائن کی ہے نیب نے مجھے بڑی عزت دی ہے۔ میرے کرپشن کے تمام مقدمات ختم کردیے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی میں ہوتی تو آج زرداری اور فریال کی طرح ذلیل اور رسوا ہورہی ہوتی۔ میں نے کہا عاشق آئندہ بھی نیب سے کچھ خطرہ ہو تو مجھے بتانا۔ اکیلی نیب کے دفتر نہیں چلی جانا۔
میرے پاکستانیو! پاکستان کی مشکلات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتیں بہت ہیں۔ جسے دیکھو سیاسی بنا پھر رہا ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں ملک میں ایک ہی سیاسی جماعت ہو۔ یک جماعتی نظام ہو۔ چین کی مثال دیکھ لیجیے۔ یک جماعتی نظام کے تحت کتنی ترقی کررہا ہے۔ چین نے یہ مقام اتنی آسانی سے حاصل نہیں کیا۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں کی قربانیاں دے کر وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔ ہمارا فی الحال پانچ ہزار افراد کو لٹکانے کا پروگرام ہے۔ فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی پروگرام میں جذبات میں آکر وقت سے پہلے ہی اعلان کردیا۔ میں نے فیصل واوڈا کو ڈانٹا ’’اوئے تیرے سے پانچ ہزار افراد کو لٹکانے کی اتنی سی بات بھی ہضم نہیں ہوئی‘‘۔ خیر میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم ملک کو یک جماعتی نظام کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے پہلے دن سے کسی سیاسی جماعت کی طرف ہا تھ نہیں بڑھایا۔ سیاست میں افہام وتفہیم سے گریز کیا۔ ہم سر توڑ کوشش کررہے ہیں کہ ملک میں کوئی طبقہ اور جماعت ہمارا ہم نوا نہ رہے۔ ایک ایک کرکے ہم نے سب کو رلانا ہے۔
میرے پاکستانیو! آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے جب ہم قرضہ لینے کی بات کررہے تھے تو انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ہمیں ایک عظیم قوم بننا ہے۔ ان کا کہنا تھا لوگوں کو لٹکانے، قتل کرنے اور ایک چھوٹا سا انقلاب فرانس لاکر سیاست دانوں کے گلوٹین کے بلیڈ سے گردن کاٹنے کا جو خیال آپ کے ذہن میں وہ مناسب نہیں ہے۔ خوامخواہ انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ادارے بھی متحرک ہوجاتے ہیں لہٰذا بہتر یہ ہے کہ آپ ایک کمیشن بنا لیں۔ لہٰذا میرے پاکستانی بھائیوں میں نے ایک کمیشن بنانے کا پروگرام بنایا ہے جس کا ظاہر مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں جو قرض لیا گیا وہ کہاں کہاں خرچ ہوا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں لیے گئے قرضوں سے اس کمیشن کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے میں پرویز مشرف پر بہت کھل کر اور بے حساب تنقید کرتا تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ’’قانون کی بالادستی‘‘ کی وجہ سے پرویز مشرف کا نام اپنی زبان پر لانا بند کردیا ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے یہ کمیشن میرے نیچے کام کرے گا۔ دراصل میں ’’چھوڑوں گا نہیں‘‘، ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ کے خالی خولی نعرے لگا لگا کر تھک گیا ہوں۔ اب میں عملی قدم اٹھانا چاہتا ہوں۔ اس کمیشن میں مشیر خزانہ حفیظ شیخ جو پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خزانہ تھے۔ میری معاونت کریں گے۔ موجودہ حفیظ شیخ پتا لگائیں گے پچھلے حفیظ شیخ نے اتنے قرضے کیوں لیے۔ میری حکومت میں اور بھی ایسے وزیر اور مشیر شامل ہیں جو پچھلے دس سال میں دونوں حکومتوں میں شامل رہے ہیں وہ بھی کمیشن کو بتائیں گے کہ اُس وقت اُن کی حکومت نے اتنے قرضے کیوں لیے تھے اور کہاں کہاں خرچ کیے تھے۔
میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ مجھے سفارتی آداب کا کچھ پتا نہیں۔ پنکی بیگم ہنستے ہوئے کہتی ہیں مجھے کسی طرح کے آداب کا بھی پتا نہیں۔ لیکن اس کے باوجود میں دوست ملکوں چین، سعودی عرب، امارات اور آئی ایم ایف کا شکریہ ادا کرنا چا ہتا ہوںکہ انہوں نے ہمیں قرض دیا۔ اب تک مجھ پر دبائو تھا۔ الحمد للہ گیارہ ماہ کی قلیل مدت میں تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو مستحکم کر کے دکھا دیا ہے۔ اب مجھ پر کوئی دبائو نہیں ہے۔ اب میں نے ان کے پیچھے جانا ہے۔ اس کمیشن کے بنانے کی ضرورت مجھے کیوں پیش آئی۔ اس کی وجہ عدلیہ کی کارکردگی ہے۔ حمورابی اور شیکسپئر کے دور سے عدلیہ سست روی کا شکار ہے۔ یہ دونوں جرمنی اور جاپان کی مشترکہ سرحد پر پاکستان کے سفیر تھے۔ ہماری عدلیہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ تیز رفتاری اور جلد بازی ناانصافی کا باعث بنتی ہے۔ مقدمات کو جلد بازی کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔
یہ عدلیہ کے غلط فیصلے تھے جن کی وجہ سے کئی مہینے شہباز شریف لندن میں مزے کرتا رہا۔ عدلیہ نے علاج کے بہانے شہباز شریف کو جانے دیا۔ اب ہم نے پنجاب کا وزیراعلیٰ ایسے شخص کو بنایا ہے جو پوری طرح فٹ ہے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی بھی درست کام کررہی ہے اور رات کو وہ سوتا بھی خوب رج کے ہے۔ شہباز کی طرح راتوں کو اٹھ اٹھ کر محکموں کے افسروں کو فون نہیں کرتا۔ بہرحال اس کمیشن کے قیام کے بعد اپوزیشن رہنمائوں کو ایسا ریلیف ملنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس کمیشن میں آئی ایس آئی سمیت خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ آئی ایس آئی کی تیز رفتاری اور عمدہ کارکردگی کی دنیا معترف ہے۔ سیاست میں ملوث ہوکر اس ایجنسی کی کارکردگی میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا آئی ایس آئی جیسی ایجنسی میرے کنٹرول میں رہ سکے گی یا نہیں تو میرے پاکستانیو یقین رکھو پنکی بیگم کی دَم کی ہوئی انگوٹھی ہر وقت میرے پاس رہتی ہے۔ یہ انگوٹھی پہن کر میں جس کو اشارہ کروںگا وہ میری انگلیوں پر ناچے گا۔ پنکی بیگم روزانہ موکلات کے سامنے بکرے کا تازہ گوشت بھی ہڈیوں سمیت رکھ رہی ہیں۔
میرے پاکستانیو ہم پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ مدینے جیسی ریاست میں فوج اور حکومت مل کر کام کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے دور میں جن لوگوں نے کرپشن کی ہے عدالتوں کے ذریعے اسے ثابت کرنے اور سزا دینے میں برسوں لگ جاتے ہیں پھر بھی رقم برآمد نہیں ہوتی۔ خفیہ ایجنسیاں حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گی تو جو کام عدلیہ برسوں میں نہیں کرپاتی۔ یہ ایجنسیاں چند گھنٹوں اور دنوں میں کرکے دکھادیں گی۔ کسی شخص کو گھر سے اٹھانے، لاپتا کرکے خفیہ مقام پر معلومات حاصل کرنے اور اس کے اہل خانے سے رقم طلب کرنے اور وصول کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے اور بعد میں وہ شخصیت برسوں پاس پڑوس اور ملنے جلنے والے تو ایک طرف اپنے گھر والوں کو بھی کچھ بتانے سے گریز کرتی ہے۔ اگر آپ کے دل میں کوئی وسوسہ ہے تو یقین رکھیے اب پا کستان پر ایمان دار لوگوں کی حکومت ہے۔ چور، ڈاکو اور کرپٹ سب جیل میں پڑے ہیں۔ اس کمیشن کے ذریعے میں اور فیصل واوڈا ان سے ماضی کا حساب لیں گے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ کمیشن میرے نیچے کام کرے گا جب کہ میں خود اس معاملے میں فریق ہوں یا یہ کہ آئی ایس آئی جیسے ادارے سیاست میں ملوث ہوکر نیک نام نہیں رہیں گے۔ میرے پاکستانیوں ایسے سوالوں کا جواب سیاست اور عمرانیات کی ماہر وینا ملک دے سکتی ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہیجان پیدا کیے بغیر بھی اعصاب شکن ماحول پیدا کرسکتی ہیں اور یہی اس کمیشن کے قیام کا مقصد ہے۔