وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ لوگوںکا تعارُف اُن کی شرافت، نجابت، اخلاق، کردار اور کارناموں سے ہوتا تھا۔ اب توتعارُف بھی ’تعارُفی کارڈ‘ سے ہوتا ہے۔ جدید سرکاری ، نیم سرکاری اور غیر سرکاری محافلِ مذاکرہ ہوں، اہم اجلاس ہوں یا غیر اہم اجتماعات، ان کے شرکا تقریب کے شروع ہی میں ریوڑیوں کی طرح ایک دوسرے کو’تعارُفی کارڈ‘ بانٹتے نظر آتے ہیں۔ آپ کو تو خیر کیا یاد ہوگا؟ شاید آپ کے دادا حضور کو یاد ہو کہ’تعارفی کارڈ‘ ایجاد ہونے سے پہلے ، پہلی ملاقات میں ،ملاقاتی صاحبان باہم کچھ اِس قسم کے مکالمات کیا کرتے تھے:
’’آپ کی تعریف؟‘‘
’’اجی میری کیا تعریف؟‘‘
’’پھر بھی؟‘‘
’’ارے صاحب! … تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔ کیسی زمیں بنائی، کیا آسماں بنایا۔پیروں تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی۔ اور سرپہ لاجوردی اِک سائباں بنایا۔ آبِ رواں کے اندر مچھلی بنائی تونے۔ مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا…‘‘
’’جی جی! … جی جی! …بے شک! بے شک!… حمدباری تعالیٰ ماشاء اﷲ آپ کو ’’فرفرفرفر‘‘ یاد ہے۔ مگرمیں آپ سے آپ کا ذاتی تعارُف حاصل کرنا چاہتا تھا‘‘۔
’’تویوں کہیے نا حضور!… حقیر، فقیر، پُر تقصیر، آپ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر… محمدنصیرہے‘‘۔
’’بڑا لمبانام ہے۔ اچھا تو حقیرفقیر پُر تقصیر صاحب! آپ کا مشغلہ کیا ہے؟‘‘
’’بس کیا عرض کروں۔ کچھ تک بندیاں کرلیتا ہوں‘‘۔
’’ارے حقیر میاں ! آپ باقاعدہ شاعری کیا کریں۔ یہاں توبڑابڑا پڑاہواہے۔صرف تک بندی کرنے والے کو کون پوچھے گا‘‘۔
یوں تجربے نے ثابت کردیا کہ انکسار بجا ہو یا بے جا، یہ دھڑکا ہر وقت موجود رہتاہے کہ لوگ منکسرانہ تعارُفی کلمات ہی کو اصل تعارُف سمجھ لیں گے۔غالباً ’ تعارُفی کارڈ‘ ایجاد کرنے کی وجہ بھی یہی بنی ہو گی۔ جو باتیں اجلاس کے تمام شرکا میں تقسیم کیے جانے والے ’تعارُفی کارڈ‘ پر لکھی ہوتی ہیں اگر وہی باتیں مذکورہ ’تعارُفی کارڈ‘کا مصنف اجلاس کے ہر شریک کو فرداً فرداً اور ’’مُنھ زبانی‘‘ بتا نا شروع کردے تواُس ’’اپنے مُنھ میاں مٹھو‘‘ کو شاید کوئی مُنھ لگانا بھی پسند نہ کرے۔مگر ’تعارُفی کارڈ‘ پڑھ کر گڈ، ویری گڈ، اوہ آئی سی وغیرہ کہنا آج کل آدابِ محفل میں شامل ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی یہ سوال کرتاہے کہ:
’’آپ کی تعریف؟‘‘
توجواب میںجیب سے ’تعارُفی کارڈ‘ نکال کر پیش کردیا جاتا ہے۔ جس پر درج عہدے، ڈگریاں اور اعزازات خودچیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ:
تعریف اُس خدا کی جس نے ’’مجھے ‘‘بنایا
’تعارُفی کارڈ‘ کو ایک مرتبہ جوشؔ صاحب نے ’’کاغذی پیرہن‘‘ قرار دیا تھا … مگر ٹھیریے! پہلے اس ’’ کاغذی پیرہن‘‘ کا قصہ سن لیجیے … یہ قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ جب کاغذ ایجاد ہوا تو حکمرانوں نے سوچاکہ لکھنے پڑھنے کے فضول کام سے ہٹ کر بھی کاغذ کا کوئی مفید استعمال ہونا چاہیے۔پس ایک انصاف پسند بادشاہ نے حکم دیا کہ اُس کے دربار میں انصاف کے حصول کی غرض سے جو بھی فریادی آئے گا وہ کاغذ کا لباس پہن کر آئے گا، تاکہ دُور سے پہچانا جائے۔( اس کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ فریادیوں کی کثرت کی وجہ سے کاغذ کی قلت ہوجائے گی اور ذرا ذراسی بات پر نکتہ چینی کرنے والے ، رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کرنے والے، تاریخ نویس کاغذکو ترستے ہی رہ جائیں گے۔) ہماراگمان یہ ہے کہ جس زمانے میں انصاف مانگنے والے فریادیوں کو کاغذی پیرہن پہن کر پیش ہونے کا حکم ہوا ہوگا، اُس زمانے میں سندھ پولیس اور پنجاب پولیس کا توکیا؟ سرے سے پولیس ہی کا محکمہ نہیں رہا ہوگا۔ ورنہ جب بھی کسی بااثر شخص، کسی بڑے افسر،کسی وزیریاکسی مشیر کے خلاف فریاد کرنے کو، کوئی فریادی کاغذ کا لباس پہن کر اُس سے ٹفِش ٹفِش کی آواز نکلواتا اوراکڑتا ہوا دربار کی طرف پیش قدمی کررہاہوتا پولیس دوڑی دوڑی آتی اور اُس کے لباس پر فقط ایک بالٹی پانی پھینک کر چلی جاتی۔ بے چارا فریادی ہڑبڑاجاتا اور اپنی فریاد کی فکر چھوڑکر اپنی عزت و آبرو بچانے کی فکر میں پڑجاتا۔ آگے پیچھے ہاتھ رکھ کر سرپٹ دوڑتا گھر کو واپس جاتا۔
القصہ مختصر… نئی نسل کو صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ پُرانے زمانے میں ’’کاغذی پیرہن‘‘ صرف فریادی صاحبان پہنا کرتے تھے۔ لہٰذا چچاغالبؔ نے اپنے دیوان کے پہلے شعر میں، جو ہمارے محتاط اندازے کے مطابق کسی قسم کے کاغذ ہی پر چھپا ہوگا، اپنے لکھے ہوئے ہرشعر،شعر کے ہرلفظ اور الفاظ کے ہر نقش کو اپنی شوخیِ تحریرکا فریادی قرار دیا تھا۔چچااپنے شعر پڑھ پڑھ آپ حیران ہوتے اور آپ ہی پوچھتے
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
تصویر کا ذکر ہوا تو ایک تصویر ہمارے ذہن میں مشہور شاعر اختر انصاری اکبر آبادی مرحوم کی بھی اُبھر آئی۔ وہ حیدرآباد سندھ سے نکلنے والے ایک ادبی رسالے کے مدیر اور مشہور شاعر تھے۔قطعہ گوئی اور برجستہ گوئی کے بادشاہ تھے۔اُس زمانے میں جب ہمارے ملک کے تجارتی اور غیر تجارتی اداروں میں بھی ’تعارُفی کارڈ‘ کا رواج عام نہیں تھا،اختر انصاری اکبر آبادی صاحب نے اپنا ’تعارُفی کارڈ‘ چھپوا رکھا تھا، جس پر اُن کی ہمہ جہت شخصیت کی ہرجہت کا تعارف طبع تھا۔ وہ بھی اسے ریوڑیوں کی طرح اپنے اپنوں میں بانٹتے پھرتے تھے۔ ایک بار انصاری صاحب حیدرآبادسے کراچی آئے تو جوشؔ صاحب سے ملنے اُن کے دفتر گئے۔ اُس زمانے میں جوشؔ صاحب، اُردو لغت بورڈ میں، ہمارے عزیز دوست، مشہور شاعر اور بے بدل محقق جناب عقیل عباس جعفری کی جگہ کسی کرسی بیٹھا کرتے تھے۔ انصاری صاحب جوشؔ صاحب سے ملنے کے لیے اُن کے دفتر پہنچے تو خود اندر جانے سے پہلے اپنا ’تعارُفی کارڈ‘اندر بھجوادیا۔ کارڈ پر بڑے خوش خط اور خُوش نما حروف میں ’’اختر انصاری اکبر آبادی‘‘ درج تھا، جو بقول مشفق خواجہ مرحوم خود ایک مصرع ہے۔ کارڈ دیکھتے ہی جوشؔ صاحب پھڑک اُٹھے اور اُن کی طبیعت رواں ہوگئی۔ جوشؔ صاحب تو قطعہ گوئی میں بادشاہوں کے بادشا ہ تھے۔ اُنہوں نے اُسی کارڈ کی پشت پر فی البدیہہ ایک قطعہ لکھا اور باہر بھجوادیا۔ کیا خوب قطعہ تھا:
کاغذی پیرہن یہ کس کا ہے؟
کون آیا ہے بن کے فریادی؟
ہاتفِ غیب نے کہا رو کر
اختر انصاری اکبر آبادی
تیسرے مصرع میں ’’رو کر‘‘ کا ٹکڑا صاف صاف جوشؔ صاحب کی شرارت تھی۔اگر جوش صاحب انصاری صاحب کا ’تعارُفی کارڈ‘ دیکھ کر پھڑک اُٹھے تھے تو انصاری صاحب یہ قطعہ دیکھ کر بھڑک اُٹھے۔خاص کر ’’ہاتف غیب کے رونے‘‘ پر۔ لہٰذا اُنہوں نے بھی فی الفور جوابی قطعہ لکھا، اندر بھجوایا اورباہر چلے آئے:
نہیں ملنا تو صاف کہہ دیجیے
قطعہ لکھ کر کے وقت کیوں کھویا؟
میں تو ہنستا ہوں اپنی قسمت پر
ہاتفِ غیب بے سبب رویا
ایسا ہی ایک واقعہ ایک بار خود جوشؔ صاحب کے ساتھ بھی ہوچکا تھا۔یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب جوش ؔ صاحب بھارت میں تھے ، پاکستان نہیں آئے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھارتی کابینہ میں وزیر تھے۔ جوشؔ صاحب اُن سے ملنے اُن کے دفتر پہنچے۔ اُس وقت تو اِس ’’کاغذی پیرہن‘‘ کا بالکل رواج نہیںتھا۔ جوشؔ صاحب نے ایک کاغذ پر اپنا نام لکھ کر اندر بھجوادیا۔ بڑی دیر انتظار کیا۔ مگر مولانا غالباً کسی اہم سرکاری کام میں مصروف تھے۔ تاخیر پر تاخیر ہوتی چلی گئی۔ زیادہ تاخیر ہوئی تو جوشؔ صاحب نے بھی ایک فی البدیہہ شعر ایک اور کاغذ پر لکھ کر اندر بھجوایا اور خود کھولتے ہوئے وہاں سے واپس چلے آئے۔انھوں نے لکھا :
نا مناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
لو صاحبو!بات تعریف وتعارف سے شروع ہوئی اور ’تعارُفی کارڈ‘ بانٹتی ہوئی خون کھولانے پر ختم ہوگئی۔ہم نے تو سو چاتھا کہ آج آپ کے فشارِ خون کو معمول پررکھنے کی کوشش کریں گے۔