۔12 فائر اسٹیشنز بند کرنے کے ذمے دار افسر کو ڈی جی، ایم ایس لگانے کی کوشش

126

کراچی (رپورٹ: محمد انور) بلدیہ عظمیٰ کراچی میں شاطر افسران کے ٹولے کی جانب سے 18 جون کو منظور کرائی گئی قرار دادوں کی وجہ سے تاحال افسران میں بے چینی برقرار ہے جبکہ بعضافسران نے بہتری کے نام پر انتظامی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ مذکورہ قراردادوں کے لیے پیش رفت کرنے پر عدالت عظمیٰ کے حکم پر تنزل کیے جانے والے افسر و متحدہ قومی موومنٹ کے سابق سیکٹر انچارج جمیل فاروقی کو ترقی بھی دیدی گئی ہے۔ یادرہے کہ 18 جون کو بلدیہ عظمیٰ کونسل نے قرارداد کی مد نمبر 4 تا 7 کے تحت بعض ایسے فیصلے کرائے ہیں جو حکومت سندھ کی جانب سے متنازع قرار دیے جانے کا امکان ہے یہ بھی خدشہ ہے کہ حکومت ان قراردادوں کو منظور کرنے کے بجائے مسترد کردے گی۔ مذکورہ قرارداد میں سب سے قابل اعتراض قرارداد گریڈ 20 کے سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز کی اسامی کو ری ڈیزگنیڈ کرکے اسے ڈائریکٹر جنرل کی اسامی کا نام دینا ہے۔ کے ایم سی میں ڈائریکٹر جنرل کی پہلے ہی سے 2 اسامیاں موجود ہیں ان میں ایک ڈائریکٹر جنرل پارکس و ہارٹیکلچر اور دو سری ڈائریکٹر جنرل ٹیکنکل سروسز ہے۔ سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز کی پوسٹ کو ڈی جی کا نام دینے سے دیگر محکموں کی اہمیت کو کم کرنا قرار دیا جارہا ہے جبکہ سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز کی اسامی کی کسی بلدیاتی یا میونسپل ادارے میں موجودگی ہی مضحکہ خیز ہے کیونکہ کے ایم سی مجموعی طور خود میونسپل سروسز فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ افسران کا کہنا ہے کہ اس اسامی پر جلد ہی گریڈ 20 کے افسر مسعودعالم کی تعیناتی کا امکان ہے کیونکہ اسے ڈی جی کی پوسٹ میں تبدیل کرانے میں مذکورہ افسر ہی کا بڑا ہاتھ ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ محکمہ میونسپل سروسز میں شامل فائر بریگیڈ کا اہم شعبہ مذکورہ افسر کی مبینہ نااہلی کے باعث اب تقریباً غیر فعال ہوچکا ہے۔ کیونکہ 48 میں سے اب صرف 8 فائر ٹینڈر ایسے ہیں جنہیں ورکنگ کنڈیشن میں قرار دیا جارہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف 6 فائر ٹینڈر ہی ایسے رہ گئے ہیں جو تیز رفتاری سے موقع پر پہنچ کر آگ بجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2009ء سے 2017ء تک سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز کی حیثیت سے مسعود عالم تعینات تھے جن کی موجودگی میں فائر ٹینڈر سمیت تمام فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی مرمت کا ٹھیکا ایک مخصوص کمپنی کو دیا ہوا تھا مگر اس کنٹریکٹ فرم کی موجودگی کے باوجود فائر ٹینڈرز درست ہونے کے بجائے خراب ہوتے رہے اور فائر اسٹیشن بند ہوتے گئے۔ شہر کے کل 23 فائر بریگیڈ اسٹیشنوں میں سے اب صرف 11 فائر اسٹیشن فعال ہیں۔ ان 11 میں سے بھی کوئی فائر اسٹیشن فائربریگیڈ کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ 12 فائر اسٹیشن بغیر فائر ٹینڈرز کی وجہ سے غیر فعال ہیں۔ ان نان فنکشنل فائر اسٹیشنوں میں شاہ فیصل کالونی، لانڈھی ، ملیر ، کیٹل کالونی نیشنل ہائی وے ، گلشن اقبال ، گلستان جوہر ، ماڑی پور ، محمودآباد اور سہراب گوٹھ بھی شامل ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ 2009ء سے شعبہ فائر بریگیڈ کا پروجیکٹ انجینئر سمیت پورا پروجیکٹ بند ہے اور یہاں کا عملہ گاڑیوں کی مرمت کے لیے مخصوص ٹھیکیدار کی ڈیوٹی کرتا ہے مگر سپروائزری افسر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح محکمہ میونسپل سروسز کا شعبہ سولڈ ویسٹ اب غیر فعال ہوچکا ہے مگر بجٹ بکس میں اس کا عملہ موجود ہے۔ میونسپل سروسز کے محکمے کی سربراہی کے لیے مذکورہ افسر کی دلچسپی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ تمام غیر فعال شعبوں کے ملازمین کو نصف تنخواہ کے عوض گھروں پر بیٹھنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ مذکورہ افسر نہ صرف میئر اور میٹروپولٹین کمشنر کا چہیتا افسر ہے بلکہ صوبے کی بیورو کریسی اور وزراء تک رسائی رکھتا ہے۔ اس افسر کا اپنے حلقے میں کہنا ہے کہ نیب بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ سب تک ان کا حصہ پہنچادیا جاتا ہے۔ کے ایم سی میں 18 جون کی قراردادوں کو کونسل میں پیش کرنے کے انعام کے طور پر سینئر ڈائریکٹر ایچ آر ایم کے طور پر تعینات جمیل فاروقی کو گریڈ 19 میں ترقی بھی دے دی گئی۔ دوسری طرف تاحال اس انتظامی حکم پر عمل درآمد کرانے میں میٹروپولیٹن کمشنر ناکام ہے جس کے تحت جو افسر جہاں سے تنخواہ لے رہا ہے وہیں وہ پوسٹ بھی ہوگا۔ اس صورتحال کی وجہ سے سینئر اور بہترین کارکردگی کے حامل افسران میں تشویش پائی جاتی ہے۔
فائر اسٹیشن