کراچی کی سب سے بڑی جیل میں امراض نفسیات کی کوئی ٹیم موجود نہیں، ماہر نفسیاتی امراض پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی

816

کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ مختلف عوامی مقامات بشمول مزاروں اور قبرستانوں کا سروے کر کے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی نشان دہی کر کے ان کوسندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی (ذہنی صحت کا اختیاری ادارہ) منتقل کرنے کا حکم ایک مستحسن فیصلہ ہے کیوں کہ بشمول مزارات اور قبرستان عوامی مقامات پر زیادہ تر مریض ایسے ہیں جو قابل علاج ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ عدالت عالیہ سندھ کے مطابق جیلوں میں مقررہ گنجائش کی جگہ زیادہ قیدیوں کو رکھنا (مثلاً لانڈھی جیل میں 1700کی جگہ پر 5000 قیدی)، اس کے علاوہ قیدیوں کے لیے بنیادی سہولت کا نہ ہونا، نامناسب رویہ، غیر مناسب کام لینا، غیر معیاری صحت کی سہولت سمیت دیگر مسائل موجود ہیں، ان جیلوں میں غیر معیاری صحت کی سہولت اور قیدیوں کو دی جانے والی اشیاءناقابل استعمال ہوتی ہیں جب کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جیلوں میں خودکشی کے واقعات عام آبادی کی نسبت 10 فی صد زیادہ ہوتے ہیں، اس کے علاوہ قیدیوں کو دماغی صحت کی بہتری کے لیے ماہر ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ قیدی حراست یا تفتیش کے دوران بہت حساس ہو جاتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی سب سے بڑی جیل میں امراض نفسیات کی کوئی ٹیم موجود نہیں، بین الاقوامی تحقیق کی مطابق جیلوں میں نفسیاتی مریضوں کی شرح 40 فی صد ہے، حال ہی میں آئی جی جیل خانہ جات کا حکم خوش آئند ہے جس میں انہوں نے صوبے بھر کی تمام جیلوں (بشمول عورتوں اور بچوںکی جیلوں) میں ذہنی مریضوں کی نشان دہی کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ کام آئی جی جیل خانہ جات صرف اکیلے نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کو مذکورہ اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ ماہر امراض نفسیات کی مہارت بھی درکار ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اس امر کی ضرورت ہے کہ جیلوں میں مقیم قیدیوں کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس سے وہ ایک کارآمد شہری بن سکیں، اس موضوع پر شعبہ نفسیات جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، کینیڈا کی قوئن یونیورسٹی کے باہمی اشتراک سے ایک تحقیق کر رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں مختلف صوبوں میں ماہر امراض نفسیات بشمول سائیکالوجسٹ، سوشل ورکرز، اوکیوپیشنل تھراپسٹ کی کمی ہے، پاکستان میں 200 ملین آبادی کے لیے صرف445 ماہر امراض نفسیات رجسٹرڈ ہیں جن میں سے سندھ میں 156، پنجاب میں 189، بلوچستان میں 25، آزاد کشمیر میں7 اور گلگت بلتستان میں 1 شامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر ماہر امراض نفسیات ملک کے بڑے شہروں میں موجود ہیں جب کہ دور دراز علاقوں میں شدید کمی کا سامنا ہے، صوبہ سندھ کے18 اضلاع ماہر امراض نفسیات سے محروم ہیں جب کہ ملک میں بچوں کے ماہر امراض نفسیات کی بھی کمی ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی فارنسک ماہر امراض نفسیات (جرائم سے متعلق ماہر) موجود نہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی، نیشنل سائیکاٹرک سوسائٹی کے باہمی اشترک سے بین الاقوامی نفسیاتی قانون کے مطابق ڈاکٹروں کے تربیتی کورس کے لیے کام کر رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ کینیڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر فارنسک ٹریننگ کورس بھی شروع کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوسائٹی کا عزم ہے کہ ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی سہولت کو کمیونٹی کی سطح پر پہنچایا جائے، ملک میں ذہنی صحت کی موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ذہنی صحت کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور اسے قومی اثاثہ سمجھتے ہوئے اس کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری کی جانی چاہیے، اس کے نتیجے میں نہ صرف غربت کا خاتمہ ہوگا بلکہ پیدا وار میں اضافے کے ساتھ ساتھ آپس میں تعلقات بھی بہتر ہونگے، سیاسی استحکام پیدا ہوگا اور ہمارے ملک اور خطے کی خوش حالی کے لیے ایک مثالی نکتہ نظر پیش کرے گا، موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے منشیات کی روک اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔