سلیکٹڈ، الیکٹڈ یا ٹڈ

280

جمہوریت کی یہ خوبی ہے کہ اس میں اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے اس آزادی کے نام پر بسا اوقات لوگ ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں لیکن بہرحال جمہوریت میں اظہار رائے کی بڑی اہمیت ہے۔ اظہار رائے کی بنیاد پر لوگ منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آتے ہیں۔ اسی اظہار رائے کی بنیاد پر اسمبلی و سینیٹ میں اپنے حلقوں کے عوام کے معاملات اور مسائل حل کرنے کے لیے گفتگو کرتے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور حکومت اس کا جواب دیتی ہے لیکن پاکستان میں پہلی حکومت ایسی آئی ہے کہ اس کے لیے فوج کا ترجمان میڈیا کو ہدایت دیتا ہے کہ 6 ماہ کے لیے حکومت پر تنقید نہ کی جائے۔ اب ڈپٹی اسپیکر نے اظہار رائے پر پابندی لگا دی ہے کہ وزیراعظم کو ایوان میں سلیکٹڈ نہ کہا جائے۔ یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ عمران خان کو زبردستی وزیراعظم بنوایا گیا ہے اس کے لیے سلیکٹ اسپیکر سے لے کر میڈیا تک ہر جگہ زور لگایا گیا۔ رزلٹ ٹرانسفر سسٹم نے بھی کمال دکھایا۔ اور یوں عمران خان وزیراعظم بن گئے اس کے لیے بڑی محنت کرنی پڑی۔’’پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو‘‘ کو پنجاب کا باوقار منصب دینا پڑا۔ اب ذرا وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہنے اور اس پر پابندی کا جائزہ لیں یہ کیونکر غیر پارلیمانی لفظ ٹھیرا۔ اس پارلیمنٹ کو موجودہ وزیراعظم نے جعلی پارلیمنٹ بھی کہا تھا اور اس کے ارکان کے بارے میں نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے تھے۔ اس پارلیمنٹ پر ان کی پارٹی نے حملہ بھی کیا تھا۔ عمران خان خود سابق وزیراعظم کو چور اور ڈاکو کہتے تھے ان کے ریمارکس پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔ یا اس وقت کے حکمرانوں میں تنقید سننے کی ہمت تھی۔ اس لیے پابندی نہیں لگی۔ تنقید کو برداشت کرنا بھی جمہوریت کا حصہ ہے۔ لیکن جمہوریت کی رٹ لگانے والوں کو تنقید برداشت نہیں ہوئی اور اسمبلی میں سلیکٹڈ کے لفظ پر پابندی لگوا دی گئی۔
اس پابندی کے محرک بھی پاکستان میں فوجی آمریت کے سب سے بڑے اور اولین کردار ایوب خان کے پوتے عمر ایوب تھے جن کے دادا نے پوری پارلیمنٹ کو جوتوں کی ایڑی تلے دبا رکھا تھا۔ یہ عمر ایوب صاحب بھی پی ٹی آئی کے دیگر ارکان کی طرح مسلم لیگ ن اور ق کے بعد پی ٹی آئی میں ہیں۔ انہوں نے بھی پارلیمنٹ اور جمہوریت میں موجود حق استعمال کیا لیکن کم ازکم انہیں ایوان کی توہین کی فکر نہیں ہونی چاہیے تھی۔ یہ لفظ اگر ایوان میں استعمال نہیں کیا جائے گا تو کیا حقیقت بدل جائے گی۔ ویسے اگر لغت دیکھی جائے تو سلیکٹ کا ترجمہ منتخب ملے گا اگر کہا جائے کہ ’’یو ہیو ٹو سلیکٹ ون تھنگ‘‘ تو اس کا ترجمہ یہی ہے کہ آپ کو کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یعنی منتخب کا مطلب سلیکٹڈ ہی ہوگا۔ اب اگر اسپیکر صاحب عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق انگریزی استعمال نہ کرنے کا فیصلہ نافذ کرنا چاہتے ہیں تو دراصل انہوں نے وزیراعظم کو انگریزی میں سلیکٹڈ کہنے پر پابندی لگائی ہے انہیں اردو میں سلیکٹڈ کہا جاسکتا ہے یعنی منتخب وزیراعظم۔ ڈپٹی اسپیکر کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہنے سے ایوان کی اور کہنے والے رکن کی توہین ہوتی ہے۔ بات تو دل کو لگتی ہے لیکن ایسا پہلی مرتبہ تو نہیں ہورہا۔ مینڈیٹ چرانے کی بات بے نظیر بھٹو بھی کرتی تھیں اور نواز شریف بھی۔ عمران خان تو اسمبلی کو بھی جعلی کہتے تھے۔ جہاں تک ایوان اور ارکان اسمبلی کی توہین کا تعلق ہے تو ایک تماشا ہورہا ہے اس سے توہین کیوں نہیں ہورہی۔ سندھ اسمبلی میں اسپیکر سراج درانی کے گھر سے نوٹوں کے ڈھیر نکلے۔ مقدمہ چل رہا ہے اور چلتا ہی رہے گا۔ شرجیل میمن پہلے ہی گرفتار تھے پھر چیف جسٹس نے چھاپا مارا تو مزید گرفتار ہوئے لیکن اب تک پتا نہیں چل سکا کہ بوتلوں میں زیتون تھا شہد یا بنی گالا مارکہ شہد۔ ان کا مقدمہ بھی چلے ہی جارہا ہے۔ چند روز قبل وزیراعظم نے شہباز شریف سمیت ن لیگ اور پی پی کے رہنمائوں کے بارے میں کہا تھا کہ ان کے گریبان پکڑ کر گھسیٹا جائے جب یہ حکم دیا جائے گا تو جواب میں سلیکٹڈ بھی ہلکا لفظ ہے۔ اس سے قبل وہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے منصب کے انتخاب کے موقع پر شہباز شریف کے بارے میں کیا ریمارکس دیتے تھے؟؟ ڈاکو کو اکائونٹس کی رکھوالی پر نہیں رکھا جاسکتا۔ وزیراعظم ایک ایسے لاڈلے بچے کی طرح ہیں جس کے اماں ابا، بڑے بھائی اور چچا، ماموں ہر وقت اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ کرکٹ کھیلنے بھی بھیجو تو چچا سب کو ڈانٹتے ہیں۔ اوئے اس کو رن کیوں نہیں بنانے دیتے۔ خبردار اس کا کیچ پکڑا۔ اور آئوٹ کرنا فائول ہے۔ وکٹ پر گیند مارنے پر پابندی ہے۔ ایسا ہی ہے نا۔ 6 ماہ تک تعریف کرو۔ سلیکٹڈ نہ کہو۔ ایک کی ضمانت منظور دوسرے کی مسترد۔ ایک ہی الزام پر دو قسم کے فیصلے۔ پھر بھی یہ جمہوری ہیں۔ بہرحال ہیں تو منتخب۔
بے اختیار ضرار خاں یاد آگئے۔ ایک صاحب کے ولیمے میں گئے اور کہا کہ پُو۔ تمہیں ولیمہ مبارک ہو۔ سب نے بیک آواز پوچھا یہ پُو کیا ہے تو جواب ملا کہ اس نے پپو کہنے سے منع کیا ہے اس لیے اب صرف پُو کہتا ہوں۔ اسی طرح ایک اور صاحب کو چھوٹا والا کہنے پر پابندی تھی۔ یہاں نام نہیں لکھ رہے ورنہ لوگ دونوں کو پہچان جائیں گے۔ تو وہ انہیں دیکھتے ہی ’والا‘پکارتے۔ اس پر جب پوچھا جاتا کہ والا کیا ہوتا ہے تو ضرار خاں بتاتے کہ انہوں نے چھوٹا والا کہنے پر پابندی لگا دی ہے اب ارکان اسمبلی کی انگریزی کی استعداد کا امتحان ہے۔ انہیں سلیکٹڈ نہ کہیں اور الیکٹڈ ماننے کو دل تیار نہ ہو تو کیا صرف ٹڈ سے کام چل جائے گا۔ ورنہ سلیکٹڈ کا ترجمہ تو منتخب ہے ہی۔