نیا میثاق جمہوریت اور جمہوری سیاست

256

تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ کبھی میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاسی بقا کے لیے ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے تھے اب ان کی اولاد ایک نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ یہ کہانی ذرا تفصیل چاہتی ہے۔ میاں نواز شریف نے ایک فوجی آمر کی گود میں پرورش پائی جب کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اس آمر کے ہاتھوں اپنے آخری انجام سے دوچار ہوئے تھے اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو اس آمر کے دور میں قید و بند اور جلاوطنی کی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ فوجی آمر طیارے کے حادثے کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہوا تو پیپلز پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی اور بے نظیر بھٹو نے انتخابات کے ذریعے ملک کی باگ ڈور سنبھالی، البتہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائد میاں نواز شریف کا قبضہ برقرار رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پیپلز پارٹی کا نام سن کر میاں نواز شریف کا خون کھول اُٹھتا تھا وہ اسے کوئی رعایت دینے کو تیار نہ تھے، میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور بے نظیر بھٹو وفاق میں پورے پاکستان کی وزیراعظم تھیں، لیکن میاں نواز شریف کے عدم تعاون کے سبب وہ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ اسلام آباد سے باہر قدم نکالتے ہی پنجاب شروع ہوجاتا تھا جہاں ان کے حریف بلکہ جانی دشمن کی حکومت تھی جو انہیں کسی صورت بھی وزیراعظم کا پروٹوکول دینے کو تیار نہ تھا، وہ انہیں سیکورٹی رسک سمجھتا تھا اور شاید فوج بھی میاں نواز شریف کے اس موقف کی حامی تھی۔ بے نظیر بھٹو انتخابات کے طفیل برسراقتدار آ تو گئی تھیں لیکن حکومت چلانا ان کے لیے دشوار تر بنادیا گیا تھا اور میاں نواز شریف کی پوری کوشش تھی کہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرکے وفاق میں بھی اپنی حکومت قائم کرلی جائے۔ بالآخر ان کی یہ کوشش کامیاب ہوئی اور بے نظیر بھٹو کو اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ نئے انتخابات ہوئے تو میاں نواز شریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف پنجاب میں وزیراعلیٰ ہوگئے، اس طرح پورے پاکستان پر شریفوں کی حکومت قائم ہوگئی، لیکن میاں نواز شریف صدر غلام اسحاق خان سے بنا کر نہ رکھ سکے انہیں بھی اپنی مدت پوری کیے بغیر رخصت ہونا پڑا۔ بے نظیر بھٹو انتخابی عمل کے ذریعے دوبارہ برسراقتدار آئیں تو انہوں نے اپنے منہ بولے بھائی فاروق لغاری کو صدر بنا کر بظاہر اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کی کوشش کی لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی اور ایوان صدر ہی ان کے خلاف سازشوں کا گڑھ بن گیا۔جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔
اور صدر فاروق لغاری نے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کو بروئے کار لاتے ہوئے بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے سبکدوش کردیا۔ اس عمل میں میاں نواز شریف کی کوششوں کا بھی بہت دخل تھا اور ان کی دلی مراد برآئی تھی۔ نئے انتخابات ہوئے تو میاں نواز شریف تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آگئے۔ اب تو ان کے اَور چَھور ہی نرالے تھے۔ تین چوتھائی اکثریت کے نشے نے انہیں آپے سے باہر کردیا۔ وہ پورے جمہوری نظام کو اپنا تابع کرنے اور اپنے سیاسی حریفوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تُل گئے۔ ان کی سب سے بڑی سیاسی حریف بے نظیر بھٹو تھیں ان کے خلاف اتنے مقدمات قائم کیے گئے کہ ان کا پاکستان میں رہنا دشوار ہوگیا اور انہیں گرفتاری سے بچنے کے لیے جلاوطن ہونا پڑا۔ میاں صاحب نے اپنی سیاسی حریف سے نمٹنے کے بعد فوج پر کمند ڈالنے کی کوشش کی اور اقتدار کے نشے میں بم کو لات ماری تو خود ان کی حکومت کے پرخچے اُڑ گئے اور انہیں پابند سلاسل ہونا پڑا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف خود میاں نواز شریف کا انتخاب تھے جنہیں کئی سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے اس منصب پر فائز کیا گیا تھا لیکن میاں صاحب ان کے ساتھ بھی نباہ نہ کرسکے اور جب وہ بیرون ملک دورے پر تھے تو انہیں برطرف کرکے نیا آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کردیا لیکن فوج اپنے سربراہ کی یہ توہین قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئی اور اس نے جنرل پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر انہیں گرفتار کرلیا۔ میاں صاحب کو قید میں کس اذیت کا سامنا کرنا اور وہ فوجی آمر کے ساتھ سمجھوتا کرکے کس طرح سعودی عرب گئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا المناک باب ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ میاں نواز شریف مکافات عمل کا شکار ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہوئے تھے۔ دونوں لیڈروں نے لندن میں جس ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے وہ حالات کے جبر کا نتیجہ تھا اس میں خوشدلانہ تعاون کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ طے پانے کے باوجود دونوں لیڈر فوجی آمر سے الگ الگ ڈیل کرتے رہے۔ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف کو اندھیرے میں رکھ کر جنرل پرویز مشرف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی اور میاں نواز شریف نے بھی اپنے حق میں حالات کو سازگار کرنے کے لیے یہی رویہ اختیار کیا۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے خلاف دونوں لیڈروں کے درمیان کسی لائحہ عمل پر اتفاق نہ تھا۔ اگر بے نظیر بھٹو کی زندگی وفا کرتی تو وہ جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں تیسری بار وزیراعظم بن سکتی تھیں اور ’’میثاق جمہوریت‘‘ منہ تکتا رہ جاتا۔ میاں نواز شریف کو موقع ملتا تو وہ بھی یہی حرکت کرتے۔ جنرل پرویز مشرف کے آخری دور صدارت میں 2008ء کے جو انتخابات ہوئے میاں نواز شریف نے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے فیصلے کے باوجود وعدہ خلافی کرتے ہوئے ان میں حصہ لیا اور پیپلزپارٹی کی دعوت پر حکومت میں شریک ہوئے۔
یہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا وہ تماشا تھا جسے پوری قوم نے دیکھا۔ زرداری کے خلاف میمو اسکینڈل منظر عام پر آیا تو میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر زرداری کے خلاف گواہی دینے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ شاید یہ عمل بھی ’’میثاق جمہوریت‘‘ ہی کا ایک حصہ تھا۔
اب دونوں خاندانوں کی نئی نسل نئے میثاق جمہوریت کے لیے وعدے وعید کررہی ہے۔ مریم نواز نے بلاول زرداری کی دعوت افطار میں شریک ہو کر اس کام کا آغاز کیا ہے جب کہ بلاول نے جاتی امرا میں حاضری دے کر اس عمل کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ بظاہر دونوں لیڈر مل کر عمران حکومت کے خلاف مشترکہ سیاسی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا مشن کچھ اور ہے۔ مریم نواز اپنے والد گرامی میاں نواز شریف کو جیل سے رہا کرانا چاہتی ہیں، جب کہ بلاول بھی ساری تگ و دو اسی لیے کررہے ہیں کہ ان کے باپ نیب کے پھندے سے نکل آئیں۔ اس وقت دونوں خاندانوں کی موروثی سیاست خطرے میں ہے اور جمہوریت کا نام لے کر اسے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کا کوئی تعلق عوام کے حقوق اور مسائل سے نہیں ہے۔ اگر اس وقت کوئی سیاسی جماعت عوام کے حق میں آواز بلند کررہی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، اس میں موروثیت کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا نہ ہی اس کا کوئی لیڈر کرپشن میں ماخوذ ہے۔ اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے وہ کسی تحفظ کے بغیر عوام کی آواز بن کر میدان عمل میں نکلی ہے۔ اگر اب بھی عوام نے اس کا ساتھ نہ دیا تو اپنے نقصان کے خود ذمے دار ہوں گے، انہیں نئے میثاق جمہوریت کے فریب میں آنے کے بجائے جمہوری سیاست کی علمبردار جماعت کا ساتھ دینا چاہیے۔