غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

345

سی این جی کی بندش کھلنے کا دن آن لگا تو لوگ باگ سرشام ہی اپنے سب کام چھوڑ چھاڑ، سی این جی اسٹیشنوں کے کنارے جا لگے۔ انگریزی حساب سے اس دن کا آغاز رات بارہ بجے ہونا تھا۔ شہر بھر میں گاڑیوں کی’ کلومیٹروں‘ طویل قطاریں لگ گئیں۔ رنگا رنگ اور قسماقسم کی چمکتی، چمچماتی گاڑیوں کا ایسا عظیم الشان اِزدِحام بھلا کب کسی نے دیکھا ہوگا؟ ہم تو دیکھتے ہی رہ گئے ۔ کیسی کیسی گاڑیاں ہیں۔ کوئی چھوٹی، کوئی موٹی، کوئی پتلی، کوئی لمبی، کوئی بہت ہی لمبی۔عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک بھی کوئی نابینا لوگوں کی انجمن یا ’ورلڈ بلائنڈ ایسوسی ایشن‘ تو نہیں کہ انہوں نے یہ منظر دیکھا ہی نہ ہو۔ ہمارا یہی تام جھام دیکھ کر تو وہ ہمیں قرضوں کے جال میں جکڑتے ہیں۔ بینک یا مالیاتی ادارے بھلا اُس غریب کو کب قرض دیتے ہیں جس کے پاس جمع جتھا کچھ نہ ہو، اور جو حقیقی ضرورت مند ہو۔ وہ شیوخ جو ہمارے ملک کو تیسری دنیا کے ممالک یعنی ’عالَمِ فقیر‘ میں شمار کرتے ہیں، انہوں نے بھی گاڑیوں پر گاڑیاں چڑھی دیکھ کر اپنے دانتوں تلے اپنی ہی اُنگلیاں داب لی ہوںگی:’’کون کہتا ہے کہ یہ غریب ملک ہے؟ یہاں تو آبادی سے زیادہ گاڑیاں ہیں‘‘۔
اب اُنہیں کون بتائے کہ قطاروں میں پھنسی گاڑیوں میں دھنسی مخلوق ہمارے ملک کی پوری آبادی کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یہ ہماری مجموعی آبادی کے کچھ فی صد لوگ ہیں۔ شاید صرف دو فی صد لوگ۔ بس انہی دو فی صد لوگوں کی تین تین سو اور چار چار سو فی صد گاڑیاں ہیں۔
اے صاحبو! ہمارا ملک غریب ہے نہ ہماری قوم غریب ہے۔مال کا غنی نہیں توہماری قوم کا ہر فرد کم ازکم دل کا غنی ضرور ہی ہے۔ غریب ہیں توبس ہمارے حکمران غریب ہیں، جن کے پاس ٹیکس دینے تک کے پیسے نہیں ہیں۔ سب پیسے ملک سے باہر ہیں۔ یہ اپنے حال کے بھی غریب ہیں، چال کے بھی غریب ہیں، مال کے بھی غریب ہیں اور دل کے غریب تو ہیں ہی۔ سنا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس تو ذاتی گاڑیاں بھی نہیں ہیں، جن میں وہ سی این جی بھروانے کے لیے رات رات بھر قطار لگانے کا کشٹ کاٹیں۔ اگر آپ کویقین نہیں آتا تو جائیے اورجاکرالیکشن کمیشن سے پوچھ آئیے۔ امداد وغیرہ کے حاجت مند اور مستحق بھی فقط ہمارے حکمران ہی ہوتے ہیں۔ ان کا خزانہ ہمیشہ خالی رہتا ہے۔ دینے کو کچھ نہیں ہوتا اور لینے کو ہمیشہ اپنا ’’دستِ بجٹ‘‘ پھیلائے رکھتے ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم تو قوم سے یہ گلہ بھی کر چکے ہیں کہ یہ قوم سب سے کم ٹیکس ادا کرتی ہے، جب کہ صدقات اور خیرات، پوری دنیامیں سب سے زیادہ یہی قوم دیتی ہے۔ اگر چہ کہ ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ یہ قوم سب سے کم ٹیکس دیتی ہے، کیوں کہ یہ قوم تو اپنی روٹی کے ہر نوالے پر، اپنے پینے کے پانی پر اور اپنے پہننے کے کپڑوں پر بھی ٹیکس دیتی ہے۔موبائل خریدنے پر ٹیکس دیتی ہے، موبائل میں پیسے ڈالنے پر ٹیکس دیتی ہے، پھر موبائل سے فون کرنے پر ٹیکس دیتی ہے۔ یہ قوم تو ہر ہر سانس پر ٹیکس دیتی ہے۔ لیکن اگر صدقات اور خیرات میں یہ قوم پوری دنیا سے آگے ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ قوم آگے ہی کا سوچتی ہے۔ پیسہ وہیں لگاتی ہے، جہاں لگانے کا فائدہ ہونا یقینی ہو۔ ہر ہر چیز پر ٹیکس دینے کے باوجود کون سا فائدہ مل جاتا ہے؟ برس کے برس ٹیکس میں جو اضافہ کیا جاتا ہے، اُس کا جواز یہی بتایا جاتا ہے کہ قرضہ ہی نہیں اُس کا سُود بھی بڑھ گیا ہے۔
عوام اور قوم کا قرض اور امداد کے لینے دینے سے کوئی واسطہ ہے نہ ڈالروں کی گرمی سینکنے سے۔اُن کا فرض تو بس ہر حکومت کے دور میں ’’قرض اُتارو… ملک سنوارو‘‘ کے حکم پر لبیک کہے جانا ہے۔ عوام ہر بجٹ کے آنے کے بعد اپنا کٹا ہوا پیٹ مزید کاٹ کاٹ کرایک مدّت سے قرض اُتارے ہی چلے جارہے ہیں، مگر یہ قرض ہے یا گلے سے لپٹا ہواسانپ جو کسی طرح اُتر کر نہیں دیتا۔نسلوں کی نسلیں گروی رکھ دی گئی ہیں، پر قرض کی رقم ہی میں کوئی کمی آ رہی ہے نہ اس کے سود میں۔ اصل زرکا بوجھ تو قرض دینے والے ہی اُترنے نہیں دیتے، تو اصل قرض بھلا کیا اُترے گا؟ قرض کا سود بھی نہیں اُتر پارہا ہے۔اب تک تو یہی دیکھا گیا ہے کہ:
رقم بڑھتی گئی جوں جوں ادا کی
سو بجٹ ہمیشہ خسارے کا بنتا ہے۔ بجلی ہمیشہ مہنگی کر دی جاتی ہے۔ پٹرول ہمیشہ مہنگا کر دیاجاتا ہے۔ گیس نہ صرف مہنگی کر دی جاتی ہے بلک اُس کی فراہمی بھی کم یا بند کروادی جاتی ہے۔ جب بجلی کی فراہمی میں کمی آتی ہے تو پانی کی فراہمی بھی بند ہوجاتی ہے۔ کارخانے بند ہوجاتے ہیں۔ ملک کی صنعتی پیداوار بند ہوجاتی ہے۔ برامدات بند ہوجاتی ہیں۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان پر چڑھ جانے کی وجہ سے ہر شخص کا ناطقہ بند ہوجاتا ہے۔ لوگ آخر کب تک منہ بند کیے بیٹھے رہیں گے؟ کوئی تو آئے گا جو اِن ’’لب بند‘‘ لوگوں کو سمجھائے گا … ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ … دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ’’بول وچن‘‘ دینے والے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو بھی ڈرایا جائے … ’’کہ یہ زمانہ ہے اِک طرح کا، زیادہ نہ بول‘‘… ورنہ اگر یہ’’ لب بند لوگ‘‘ لوگ بلبلا کر بول اُٹھے تو سب بولا جائیں گے۔
اہل دین و دانش میں سے آمریت اور ملوکیت کے خلاف تو سب بولتے ہیں۔مگر حق بات بولے تو صرف اقبالؔ بولے کہ:
مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
یعنی ٹیکس خواہ خسرو پرویز لگائے، پرویز مشرف لگائے یا ’’قومی اسمبلی‘‘۔جو بھی فقیروں کی کمائی لوٹے گا، وہ سلطان ہے، بادشاہ ہے، ملوک میں سے ہے اورآمر ہے۔ یہ کیابات ہوئی کہ محنت تو کسان اور مزدور کرے، لیکن اُس کی کمائی پر نظر وہ رکھیں جو خود دو کوڑی کے بھی نہیں!
آج گاڑیوں کی جیسی طول طویل قطاریں ہمارے یہاں لگتی ہیں، کبھی شاہ فیصل شہید نے ایسی ہی قطاریں امریکا میں لگوا دی تھیں۔وقت وقت کی بات ہے۔کبھی ہمارے رہنما بھی غیرت اور حمیت والے ہوتے تھے۔کبھی ہماری اُمت میں بھی مدبر(یعنی تدبیر کرنے والے) لوگ پائے جاتے تھے۔ ’’کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘۔مگر یہ کوئی بہت پرانی بات تو نہیں۔شاہ فیصل شہید کا زمانہ ہی نہیں، قائدِ اعظمؒ کا زمانہ بھی کوئی بہت پرانا زمانہ تو نہیں، جو سرکاری مال کو حلال نہ کرتے تھے ۔ یہ تو گویا حال ہی کی بات ہے۔پھرہم کیوں مایوس ہیں؟
آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا