قومی اثاثہ!

251

وطن عزیز میں رائج سیاست کا مقصد خود کو بلند کرنا ہے اتنا بلند کہ مقتدر قوت پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے، سیاست دانوں کی ذات ایک ایسا دائرہ ہے جس میں ملک و قوم کا داخلہ شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے، سیاست دان اقتدار سے باہر ہوں تو سبھی کو باہر والا سمجھتے ہیں اور جب ایوان اقتدار میں گھس بیٹھنے کا موقع مل جائے تو اندر سے باہر والے بن جاتے ہیں اور باہر والوں کے طور طریقے ان کا آئیڈیل بن جاتے ہیں اور جب اس حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو ایسے سوالات کو ذاتیات قرار دے کر مسترد کردیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال اہمیت اختیار کرلیتا ہے کہ آخر ذاتیات ہے کیا؟ اور ذاتی سرگرمیاں گرم مزاجی کا باعث کیوں بنتی ہیں؟۔ کہتے ہیں سیاست دان قومی اثاثہ ہوتے ہیں، ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ سیاست دان قومی اثاثوں کو اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں اور اسے مال مفت کی طرح بڑی بے رحمی سے خرچ کرتے ہیں ان کے دل تنگ اور ہاتھ کھلے ہوتے ہیں۔ عوام کے نام پر قرض لیتے ہیں اور مختلف حیلے بہانوں سے بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں، بااختیار اور بااثر طبقہ اپنے بال بچے اور مال و متاع بیرون ملک محفوظ سمجھتے ہیں اور اس مکروہ اور شرم ناک فعل پر کبھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں بعض مبصرین کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہی لگتا ہے کہ اس سوچ کے اصل ذمے دار ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہیں، موصوف نے برسراقتدار آتے ہی صاحب ثروت لوگوں کو بے وقعت کرنے کے لیے ان کی صنعتوں کو قومیا کر صنعت کاروں کو یہ باور کرانے کی سعی ٔ نامشکور کی تھی کہ پاکستان سرمایہ کاروں کے لیے غیر محفوظ ملک ہے۔
سوالات تو نیب کی کارکردگی پر بھی اُٹھتے رہتے ہیں مگر ان پر توجہ نہیں دی جاتی، ہماری عدلیہ جو ازخود نوٹس لینے میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے اس نے بھی اس معاملے کو پس پشت ہی رکھا مگر اس سے بھی بڑی حیرت یہ ہے کہ جو کام حکومت اور عدلیہ کا تھا اسے بھی ایک فوجی افسر نے سرانجام دیا۔ سابق بریگیڈیئر اسد منیر کو نیب نے نادر شاہی حکم جاری کیا تو وہ نیب کے حضور پیش ہونے کے بجائے خدا کی عدالت میں پیش ہوگئے۔ نیب کے توہین آمیز رویے نے انہیں خودکشی پر مجبور کردیا۔ نیب کسی ثبوت کے بغیر ہی طلب کرکے تفتیش کا آغازکردیتا ہے اور اس کا تفتیشی عمل انتہائی تضحیک آمیز ہوتا ہے۔ نیب کے اسی رویے کے پیش نظر بہت سے لوگ اسے کڈنیب کہتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے رہنما فخر اسلام کو نیب نے آٹھ ماہ تک یرغمال بنائے رکھا، اس طویل اور جاں گسل عرصے میں صرف دو گھنٹے تفتیش کی گئی اور پھر بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا۔ فخر اسلام نیب کی حراست میں ہونے کے باعث عام انتخابات میں حصہ بھی نہ لے سکے۔ مالی اعتبار سے بھی بہت سا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ اس تناظر میں یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ نیب کی حراست دراصل ہراسمنٹ کی ایک مکروہ صورت ہے اور مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کا آسان ترین طریقہ ہے۔
سابق وزیراعظم خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ نیب تو خود قابل احتساب ہے، ان کا یہ کہنا بھی غور طلب ہے کہ نیب سیاست دانوں کو حراست میں لے کر ثبوت ڈھونڈتی ہے اور ثبوت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ عباسی صاحب کے بقول نیب کے چیئرمین کے خلاف ثبوت موجود ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، مگر ایسا کب تک چلے گا؟۔ وہ دن دور نہیں جب وزیراعظم عمران خان اور نیب کے چیئرمین جاوید اقبال کو جواب دینا ہی پڑے گا۔ عزت مآب چیف جسٹس پاکستان نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ملزم خاموش رہے تب بھی ثبوت پیش کرنے کی ذمے دار نیب ہے۔ یہ سوال بھی غور طلب امر ہے کہ نیب ثبوت کے بغیر کسی کو زیر حراست کیسے رکھ سکتا ہے؟۔ گزشتہ دنوں بھارت کی سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ کوئی بھی جج اس وقت تک سمن جاری نہیں کرسکتا جب تک وہ مدعا علیہ یا شکایت کندہ کے الزامات کی تصدیق نہیں کرلیتا کیوں کہ جس کے خلاف سمن جاری کیا جاتا ہے معاشرہ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ سمن جاری کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ مدعی یا شکایت کنندہ اپنے مخالف کو ذہنی اذیت دینا یا معاشرے میں رسوا کرنا تو نہیں چاہتا۔ ہم ایک مدت سے عدلیہ کے چودھریوں سے یہی گزارش کررہے ہیں کہ سمن جاری کرنے سے پہلے یہ تحقیق ضروری ہے کہ الزامات درست ہیں یا نہیں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔