قیامت کی گرمی‘ پانی اور حکومت مخالف تحریک

273

قیامت کی گرمی کا تو ہم تصور نہیں کرسکتے لیکن پاکستان میں اِن دنوں قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے۔ چند پہاڑی علاقوں اور شمالی علاقہ جات کو چھوڑ کر پورا ملک اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ سورج آگ برسا رہا ہے اور گرم ہوائیں بدن میں برے کی طرح چبھ رہی ہیں۔ ایسے میں بہت سے علاقوں میں پانی کی قلت نے اور قیامت ڈھا رکھی ہے۔ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، پانی آدمی کی بنیادی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے لیکن حکومت نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ چند شہروں کے سوا پورے ملک میں پانی کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ جن شہروں میں واٹر سپلائی کی اسکیمیں کام کررہی ہیں جب گرمی کا موسم آتا ہے تو وہاں بھی پانی کی طلب اور اس کی فراہمی میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے، لوگوں کو ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملتا اور وہ ٹینکر خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس شدید گرمی میں کم و بیش تمام شہر ٹینکر مافیا کے نرغے میں ہیں۔ ضرورت مند شہری پانی منہ مانگے داموں خرید بھی رہے ہیں اور انتظار کی زحمت بھی اُٹھا رہے ہیں۔ جن علاقوں میں ٹینکروں کے ذریعے بھی پانی دستیاب نہیں ہے وہاں کا حال اور بُرا ہے۔ شدید گرمی کے سبب زیر زمین پانی کی سطح بھی بہت نیچے چلی گئی ہے، جہاں سو ڈیڑھ سو فٹ زیر زمین پانی آسانی سے مل جاتا تھا اور لوگ گھروں میں بور کراکے پانی حاصل کررہے تھے۔ پانی کی سطح نیچے چلے جانے سے ان کے بور خشک ہوگئے ہیں اور وہ پانی حاصل کرنے کے لیے زیادہ گہرے بور کرانے پر مجبور ہیں۔ ہم نیم پہاڑی علاقے کہوٹا میں رہائش پزیر ہیں یہاں بھی پانی کی قلت نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ زمین میں بور کرنے والی مشینیں جگہ جگہ لگی ہوئی ہیں اور تین سو فٹ سے زیادہ گہرائی میں جا کر پانی پمپ کرنے والی موٹریں لگائی جارہی ہیں تا کہ یہ سیزن تو آرام سے گزر سکے۔ بور کرانے کا خرچہ ڈیڑھ پونے دو لاکھ کے قریب آتا ہے۔ غریب شہری جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہ پانی حاصل کرنے کے لیے یہ مالی دبائو برداشت کرنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ پانی روٹی سے زیادہ آدمی کی ناگزیر ضرورت ہے، وہ روٹی کے بغیر تو کئی دن زندہ رہ سکتا ہے لیکن پانی کے بغیر وہ اس شدید گرمی میں ایک دن بھی گزار سکتا۔
لیجیے صاحب قیامت کی گرمی اور پانی کی قلت کا رونا تو بہت ہوچکا اب کچھ سیاستِ دوراں پر بھی بات ہو جائے۔ اب کی دفعہ بھی ہم نے حسب سابق دو دو بلکہ تین تین عیدیں منائیں۔ ایک دن پورے ملک میں اور دو دن خیبرپختونخوا میں۔ وہاں پہلی عید 28 رمضان المبارک کو ہی منالی گئی۔ قصور اس میں پشاور کے مفتی پوپلزئی کا بھی نہیں ان کے پاس چاند دیکھنے کی 120 شہادتیں موصول ہوگئی تھیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل ایوب خان کے زمانے میں رویت ہلال کا تنازع کھڑا تو رئیس امروہوی مرحوم نے رویت ہلال کمیٹی کے اختیارات پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا۔
مدت سے میرا چاند دکھائی نہیں دیا
اے رویت ہلال کمیٹی کہاں ہے تُو!
لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب تو ہر شخص اپنا چاند بغل میں دبائے پھرتا ہے۔ خیبرپختونخوا والے اس باب میں کچھ زیادہ ہی خود کفیل ہیں۔ بہرکیف عید گزر گئی اب عید کے بعد بجٹ اور حکومت مخالف تحریک کا مرحلہ درپیش ہے۔ بجٹ حکومت پیش کرے گی جس میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہوگی۔ عوام دوست بجٹ کا نام دے کر عوام کا خون نچوڑا جائے گا۔ دفاعی اخراجات میں کمی کا شوشا بجٹ سے پہلے چھوڑا جاچکا ہے۔ بجٹ آئے گا تو پتا چلے گا کہ اخراجات میں کہاں کہاں کمی کی گئی ہے اور آئی ایم ایف کا ٹارگٹ کیا ہے۔ آئی ایم ایف جن ملکوں کو قرض دیتا ہے وہاں اپنے سیاسی ایجنڈے پر بھی عمل کرتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اس کا سیاسی ایجنڈا کیا ہے؟ یہ جلد یا بدیر واضح ہوجائے گا۔ بجٹ کے بعد اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف تحریک پر تُلی ہوئی ہیں وہ اس کا فیصلہ عید سے پہلے ہی کرچکی ہیں۔ اب اے پی سی ہوگی اور اپوزیشن جماعتیں سرجوڑ کر کوئی لائحہ عمل طے کریں گی لیکن
مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
مسلم لیگ (ن) اس انتظار میں ہے کہ عدالت میاں نواز شریف کی درخواست ضمانت پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔ حکومت مخالف تحریک چلنے نہ چلنے کا انحصار اسی فیصلے پر ہے، البتہ ہوم ورک پورا ہے۔ شہباز شریف بھی خلاف توقع لندن سے واپس آگئے ہیں، وہ بجٹ اجلاس میں حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دیں گے جب کہ مریم نواز اے پی سی میں بلاول اور مولانا فضل الرحمن سے مشاورت کریں گی۔ اے پی سی کب ہوگی ابھی ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق اس پر بھی مشاورت باقی ہے۔ بہرکیف
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!