2 واقعات ایک ساتھ ہوئے‘ یہ اتفاق ہے ہے یا منصوبہ بندی‘ پہلا واقعہ امروہہ میں ہوا جہاںدلت برادری کی ایک بارات جب ماکن پورسمالی گائوں کے مندر گئی تاکہ دلہا مندر میں پوجا پاٹ کرسکے تو مقامی لوگوں نے اسے روک دیا، مندر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ دلہا جاٹو برادری کا تھا اور روکنے والے سب ’’اونچی‘‘ جاتیوں کے لوگ تھے۔ اس پر گائوں میں اور اس کے آس پاس کشیدگی پیدا ہو گئی۔ بات جھگڑے فساد تک پہنچتی‘یہ واقعہ امروہہ کی تحصیل حسن پور کا ہے‘ دوسرا واقعہ برطانیہ میں ہوا‘ جہاں ایک افغان باشندے نے ایک پاکستانی باشندے کو نماز کے لیے مسجد جانے سے روک دیا اور اس واقعہ کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی‘ پس منظر یہ ہے کہ غالبا ایک دو روز قبل یہاں پی ٹی ایم کے افغان رابطوں کو بے نقاب کرنے سے متعلق ایک مظاہرہ ہوا تھا‘ لہٰذا غصے کے اظہار کے لیے ایک پاکستانی باشندے کو نماز کے لیے مسجد جانے سے روک دیا گیا‘ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت‘ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ افغانستان سمیت ہر جگہ لابیاں کام کر رہی ہیں اور بھارت کا ہاتھ ہر لابی میں نظر آتا ہے عبادت گاہ‘ چاہے کسی بھی مذہب کی ہو‘ اس پر اس مذہب کے ماننے والوں کے لیے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے‘ مندر میں امیر ہو یا غریب ہر ہندو جاسکتا‘ مسجد میں ہر مسلمان‘ چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو‘ نماز کے لیے مسجد جاسکتا ہے اسے کوئی اس بنیاد پر نہیں روک سکتا ہے کہ جس ملک کے باشندوں نے مل کر یہ مسجد بنائی ہے‘ نمازی کا تعلق بھی اسی ملک سے ہونا ضروری ہے‘ قطعاً ایسا نہیں ہوسکتا‘ برطانیہ میں نماز کے لیے مسجد جانے والے ایک پاکستانی کے ساتھ جس گھٹیا سوچ کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کے پیچھے بھارت کی ذہنیت ہے امروہہ میں ہونے والے وقعہ پر تو وہاں پولیس پہنچی اور صورت حال کو خراب ہونے سے بچالیا تاہم گائوں میں کشیدگی باقی ہے لیکن برطانیہ میں پولیس نہیں پہنچی‘ امروہہ میں ہونے والے واقعہ پرجاٹو برادری اور نام نہاد اونچی جاتی دونوں کے اندر غم و غصہ ہے پولیس واقعے کو اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے دبانے کی کوشش کررہی ہے مگر قصہ ’’اونچی‘‘ اور ’’نچلی‘‘ جاتیوں کی روایتی کشمکش کا ہے کہا جاتا ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے یہ واقعہ اُن ہزاروں واقعات میں سے ایک ہے جو برسوں سے یوپی اور ملک کی دوسری ریاستوں میں پیش آتے رہے ہیں ’’اونچی‘‘ جاتیوں کے لوگ مندروں کو اپنے لیے مخصوص سمجھتے
ہیں شودروں یعنی نچلی جاتیوں سے مندر اپوتر ہوجاتے ہیں۔ ادھر شودروں کا موقف ہے کہ وہ شادیوں اور تہواروں کے موقع پر مندر ضرور جائیں گے ۔ مہاراشٹر وغیرہ میں تو باقاعدہ تحریک چل رہی ہے کہ دلت برادریوں کے لوگ خود کو ہندو نہ کہیں، نہ سمجھیں اور کوئی کہتا ہے تو اسے روکیں۔ اس سلسلے میں مہاراشٹر کے دلت لیڈر اور وامن مشرام بہت پیش پیش ہیں۔ ایک بار مسلمانوں کے ایک بڑے جلسے میں انہوں نے پرزور اپیل کی کہ ’’ہمارے مسلمان بھائی ہمیں ہندو نہ کہا کریں، اس سے ہمارا کیس کمزور ہوتا ہے ہم ہندو ہرگز نہیں ہیں، یہ نام نہاد اونچی جاتیوں اور منووادیوں کی ہمارے خلاف سازش ہے جو ہمیں دنیا کے سامنے ہندو بنا کر پیش کرتے ہیںحالیہ الیکشن پر امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ نے اپنی اشاعت میں انتہا پسند اور متعصب نریندر مودی کی تصویر سر ورق پر شائع کر کے مودی کو بھارت کامنقسم اعلی قرار دیا ہے میگزین کا کہنا ہے کہ ’’نریندر مودی نے بھارت کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔‘‘ بھارت کی ڈیڑھ ارب کی آبادی میں 35 کروڑ سے زائد مسلمان ہیں۔ نریندر مودی کی حالیہ کامیابی کے بعد بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے گزشتہ دنوں کئی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئیں
جس میں مسلمانوں کو صرف اس بنیاد پر کہ انہوں نے گائے کا گوشت کھایا، یا محض اس شک پر کہ یہ گائے کا گوشت ہے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارت میں مساجد سے اذان کی صدائیں بھی انتہا پسندوں پر گراں گزرتی ہیں اور وہ متعدد بار برملا اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان صدائوں کو بند ہونا چاہئے آج سات عشرے گزرنے کے بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ کا دو قومی نظریہ درست ثابت ہو رہا ہے کہ ’’مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔‘‘ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے مظالم اور تذلیل سے ایسے عناصر کی آنکھیں کھل جانا چاہئیں نریندر مودی کے گزشتہ دور حکومت میں بھارت میں انتہا پسندی و تنگ نظری عروج پر رہی اور مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کا جینا دوبھر ہو گیا اور وہ آج خوف کے ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔عالمی برادری بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کیخلاف آواز اٹھائے اور بھارت کو مجبور کرے کہ وہ اقلیتوں کو ان کے حقوق فراہم کرہیں لیکن اس کا سرپرست امریکہ بھارت کی طرف داری کررہا ہے بھارت امریکہ بزنس کونسل کے اجلاس سے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا خطاب کھلی حقیقت ہمارے سامنے ہے دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی سرغنہ اور بڑا ثبوت کلبھوشن یادیو ہے لیکن امریکا صرف ایک آنکھ اورا ندھے تعصب کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔