23 جولائی کو حکمران ٹوری پارٹی کے نئے لیڈر کا اعلان ہوگا جو عام انتخابات کے عمل سے گزرے بغیر برطانیہ کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالے گا، اگر کوئی سیاسی زلزلہ نہ آیا تو قوی امکان ہے کہ یہ نیا وزیر اعظم 54 سالہ، سر سے پائوں تک تکبر میں ڈوبے ہوئے، لفاظی کے ماہر، اشرافیہ سے تعلق کے گھمنڈی مالدار ترین نجی اسکول ایٹن میں پڑھے، آکسفورڈ کے فارغ التحصیل، لندن کے سابق مئیر اور سابق وزیر خارجہ اور ہر صورت میں چاہے کتنی ہی تباہی کا سامنا کرنا پڑے یورپ سے قطع تعلق کے دیوانہ وار حامی، بورس جانسن ہوں گے جو پچھلے دنوں صبح سویرے اپنی گرل فرینڈ، داشتہ کیری سائمنڈ کے فلیٹ میں لڑائی جھگڑے، چیخم چاخ اور برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز پر پڑوسیوں کے پولیس طلب کرنے کے واقعہ میں ملوث تھے اور جو ہر انتخابی جلسہ اور انٹرویو میں اس سوال پر خاموشی پر اڑے ہوئے ہیں کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ ان کا استدلال ہے کہ یہ ان کا نجی معاملہ ہے اور اسے سیاست سے نہ الجھایا جائے لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے شخص کا یہ معاملہ نجی نہیں ہے جو اس ملک کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس واقعے اور اس پر خاموشی کی وجہ سے بورس جانسن کی مقبولیت کا گراف اپنے مد مقابل موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کے مقابلہ میں تیزی سے گرا ہے۔ بورس جانسن اور ان کے حامیوں کو توقع ہے کہ 23 جولائی تک جب کہ ٹوری پارٹی کے لیڈر کا انتخاب ہوگا لوگ اس واقعے کو بھول جائیں گے، ممکن ہے ٹوری پارٹی کے اراکین یہ واقعہ بھول جائیں لیکن عوام کی اکثریت بورس جانسن کی دروغ گوئی کو نہیں بھول سکتی جس کے وہ عادی ہیں اور جو ان کی شخصیت کا جزو لاینفک مانا جاتا ہے اور نہ لوگ ان کی اسلام دشمنی کو بھلا سکتے ہیں۔ انہوں نے حجابی مسلم خواتین کی یہ کہہ کر بے عزتی کی تھی کہ برقعے میں مسلم خواتیں لیٹر باکس اور بینک ڈاکو لگتی ہیں۔
بورس جانسن 23 جولائی کو وزیر اعظم بنیں یا نہ بنیں انہیں اگلے عام انتخابات میںجو 2022 میں یا اس سے پہلے ممکن ہیں، لندن کے مضافات اکسبرج میں اپنے پارلیمانی انتخابی حلقہ میں ایک 24 سالہ ایرانی نژاد مسلمان علی میلانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ نوجوان جو تین سال کی عمر میں اکسبرج آیا تھا اسی علاقے میں پلا بڑھا اور اسی علاقے میں اس نے کام کیا ہے اور اسی علاقے میں وہ لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کائونسلر منتخب ہوا ہے۔ علی میلانی کا کہنا ہے کہ اس کا اس حلقے کے عوام سے گہرا تعلق ہے جب کہ بورس جانسن اس حلقہ سے محض پانچ ہزار ووٹ کی اکثریت سے پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے ہیں۔ وہ نہ اس حلقے میں رہتے ہیں اور بہت کم اس حلقے کے ووٹروں سے ملنے آتے ہیں۔ اکسبرج میں نسلی اقلیتوں کی تعداد میں پچھلے دس برس میں دوگنا اضافہ ہوا ہے اور اب ان کی تعداد 35 فی صد ہے۔ علی میلانی کو قوی توقع ہے کہ وہ اس حلقہ میں بورس جانسن کو شکست دینے میں کامیاب رہیں گے اگر ایسا ہوا تو برطانیہ کے مسلم دشمن وزیر اعظم ایک مسلم نوجوان سے شکست کھائیں گے۔
رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ حکمران ٹوری پارٹی میں اسلامو فوبیا، اسلام سے نفر ت کا مسئلہ سنگین نوعیت کا ہے۔ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ٹوری پارٹی کے آدھے سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ کسی مسلمان کو وزیر اعظم بنانے کے خلاف ہیں۔ صرف آٹھ فی صد اراکین پارلیمنٹ، کسی مسلمان کو وزیر اعظم بنانے کے حق میں ہیں۔ اس کا ثبوت پچھلے دنوں
ٹوری پارٹی کے لیڈر کے انتخابی عمل کے دوران سامنے آیا ہے۔ وزیر داخلہ ساجد جاوید جو 6 امیدواروں میں شامل تھے، چوتھے راونڈ میں تین سو تیرا ٹوری اراکین پارلیمنٹ میں سے صرف 34 ووٹ حاصل کر سکے اور انتخابی میدان سے باہر ہو گئے، جب کہ بورس جانسن کو 175 ووٹ ملے۔ رائے عامہ کے اسی جائزے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ٹوری پارٹی کے دو تہائی سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ اس فرضی خیال پر یقین رکھتے ہیں کہ برطانیہ کے بعض علاقوں میں مسلمانوں نے شرعی قوانین نافذ کر رکھے ہیں اور برطانیہ کے مسلم اکثریت کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتے۔ گو آدھے سے زیادہ ٹوری اراکین پارلیمنٹ یہ قبول کرتے ہیں کہ برطانیہ میں اسلام سے نفرت ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن صرف آٹھ فی صد ٹوری اراکین اعتراف کرتے ہیں کہ ٹوری پارٹی میں اسلام سے نفرت کا کوئی مسئلہ ہے۔ ٹوری پارٹی کے 40 فی صد اراکین پارلیمنٹ کی رائے ہے کہ برطانیہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عاید کی جانی چاہیے۔
موجودہ برطانوی پارلیمنٹ میں صرف پندرہ مسلم اراکین ہیں۔ ان میں سے بارہ اراکین لیبر پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ صرف تین اراکین پارلیمنٹ ٹوری پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد آبادی کی 5فی صد ہے اس لحاظ سے پارلیمنٹ میں 30 مسلم ارکان پارلیمنٹ ہونے چاہئیں۔ عام طور پر بورس جانسن اپنا مسلم پس منظر چھپاتے ہیں لیکن پچھلے دنوں جب برقع پوش مسلم خواتیں کو لیٹر باکس اور بینک ڈاکو کہنے پر ان کی بہت زیادہ لے دے ہوئی تو انہوں نے اپنے مسلم پس منظر کا بڑھ چڑھ کر ذکر کیا۔ بورس جانسن کے پر دادا، علی کمال، ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے وزیر اعظم فرید پاشا کی حکومت
میں وزیر داخلہ تھے۔ لیکن 1908میں سلطان عبد الحمید کے دور کے خاتمے کے بعد وہ وزارت سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے ممتاز صحافی کی حیثیت اختیار کر لی۔ وہ کمال اتاترک کے سخت خلاف تھے۔ اسی وجہ سے وہ اتاترک کے حامیوں کی آنکھ میں کھٹکتے تھے۔ چناں چہ 1922 میں انہیں استنبول میں ایک حجام کی دکان سے جب وہ حجامت بنوا رہے تھے اغوا کر لیا گیا۔ انہیں انقرہ کی عدالت میں غداری کے الزام میں پیش کیا جانا تھا لیکن راستے میں اتاترک کی فوج کے سربراہ جنرل نور الدین کے دستے نے ان کو پکڑ کر اپنے قبضہ میں لے لیا اور انہیں بری طرح سے مار پیٹ کر ہلاک کردیا اور ان کی نعش ایک درخت سے لٹکا دی۔ اپنی ہلاکت سے پہلے بورس جانسن کے پر داد نے 1903میں لندن میں ایک سوئس انگریز لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ اس سے تین بچے پیدا ہوئے تھے، ان میں سے ایک بیٹا عثمان کمال تھا جو بعد میں عیسائی ہوگیا اور اس نے اپنا نام ونفرڈ جانسن رکھا۔ ونفرڈ جانسن ’(عثمان کمال) نے ایک لڑکی آئیریں ولیمز سے شادی کی جس سے بورس جانسن کے والد، اسٹینلے جانسن پیدا ہوئے۔ پیدائش بورس جانسن کی امریکا میں ہوئی تھی بعد میں ان کے والدین لندن منتقل ہوگئے جہاں بورس نے امیروں کے اسکول ایٹن میں تعلیم حاصل کی اور آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ بورس نے صحافت روزنامہ ٹائمز سے شروع کی جہاں ان پر جعلی خبر دینے کا الزام لگا تھا۔ اس کے بعد وہ عرصہ تک برسلز میں روزنامہ ٹیلی گراف کے نامہ نگار رہے۔ اور 2007 میں لندن کے میئر منتخب ہونے سے پہلے دائیں بازو کے جریدے اسپیکٹیٹر کے مدیر رہے۔ پہلی بار 2001 میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے لیکن لندن کے مئیر منتخب ہونے کے بعد 2008 میں پارلیمنٹ سے مستعفی ہو گئے۔ پھر 2015 میں دوبارہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔