کیا سب کچھ فوج کر رہی ہے

311

پاکستانی حکومت تیزی سے اقدامات کرنے جا رہی ہے۔ بجٹ آیا اور منظور ہو گیا اِدھر وزیراعظم کوئی خواہش ظاہر کرتے ہیں حیرت انگیز طور پر وہ پوری ہو جاتی ہے۔ قانون اور آئین خواہ کچھ کہہ رہے ہوں وزیراعظم کی خواہش پوری کی جاتی ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ رانا ثنا اللہ کو گرفتار کرائوں گا سو وہ کر دکھایا گیا۔ اینٹی ٹارکوٹکس فورس نے انہیں منشیات فیصل آباد سے لاہور اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ شاید لاہور میں منشیات نہ ملتی ہوں اور فیصل آباد میں سستی ملتی ہوں اس لیے رانا ثنا اللہ کو اپنی گاڑی میں منشیات رکھ کر لے جانی پڑیں… بہرحال جب چودھری ظہور الٰہی بھینس کی چوری کے مقدمے میں پھنس سکتے ہیں تو رانا ثنا اللہ کیا چیز ہیں۔
کہتے ہیں ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں واقعی ہر چیز کے دو ہی رخ ہیں۔ بیرون ملک اثاثے رکھنے کے کیس میں پی ٹی آئی کے ہم نوائوں کے لیے ٹھنڈی ہوائیں۔ اور نواز زرداری کی پارٹی کے لیے جیل کی ہوائیں۔ نیب کے ایک ہی جیسے مقدمے میں پی ٹی آئی کے ہم نوائوں کی ضمانت مسلم لیگ اور پی پی والوں کی مسترد۔ پی ٹی آئی کے رہنما کی گاڑی سے بنی گالہ مارکہ بوتل نکلی وہ آج تک شہد کی بوتل سے آگے نہیں گئی۔ اکثر لوگ بنی گالہ مارکہ بوتل پینے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ اب رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے منشیات کی بھاری مقدار برآمد ہوئی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ منشیات کب دوائوں میں تبدیل ہوتی ہیں۔
اس ساری مہم کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بلاول زرداری شہباز، حمزہ وغیرہ سب ہی کہہ چکے ہیں کہ عمران خان اتنا ظلم کریں جتنا سہ سکتے ہیں۔ یقینا ان سابق حکمرانوں نے بھی اتنا ہی ظلم کیا ہو گا جتنا آج کل سہ رہے ہیں۔ اب عمران خان جانیں وہ کتنا ظلم سہہ سکتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی آصف زرداری اور فریال تالپور کو بچانے کے لیے میدان میں ہے اور بلاول کو محفوظ رکھنا چاہتی ہیں۔ مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کو پہلے مرحلے میں ملک سے باہر نکال لے جانا چاہتی ہے۔ پھر باقی لوگوں کا معاملہ سلجھائے گی اور قیادت کا مسئلہ حل کرے گی۔ لیکن حکومت جس رفتار سے ملک کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے اس کو بریک لگانے والا کوئی نظر نہیں آرہا۔ اکیلے سراج الحق اور جماعت اسلامی سے یہ کام ہونے کا نہیں۔ جماعت اسلامی حق بات کہنے کا فریضہ تو ادا کر رہی ہے لیکن یہ جماعتیں جنہیں خوامخواہ بڑی جماعت کہا جاتا ہے ایسا کوئی کام کرنے کے حق میں نہیں جو معاملات کو سدھار سکتا ہو نہ یہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا چاہتی ہیں نہ غیر ملکی مداخلتوں سے اور نہ آئین کی بالادستی چاہتی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی خواہشیں اور ان کے پورے ہونے کا اندازہ لگائیں کہ وہ اب کہہ رہے ہیں بدعنوان ارکان پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیے جائیں۔ اور ساتھ ہی عدالت میں پروڈکشن آرڈر منسوخ کرانے کے لیے درخواست بھی دی گئی ہے۔ اب عدالت کیا فیصلہ کرے گی یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ فیصلے جس طرح آرہے ہیں اور حکومت کی مدد کے لیے محکمہ زراعت جس طرح ہدایات دیتا ہے اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کیا ہو گا۔ بنی گالہ مارکہ مشروب جن صاحب کی گاڑی سے نکلا تھا وہ آج کل وزیر ہیں۔ مشروب کا پتا نہیں چلا کہ نشہ آور تھا یا وزارت آور… کیوں کہ جس جس کو ایسے مواقع ملے وہ وزیر بنا یا وزیر رہا ہے۔ رانا ثنا اللہ کے بھی دوبارہ یا سہ بارہ وزیر بننے کے امکانات اے این ایف نے روشن کر دیے ہیں۔ اسی طرح شرجیل انعام میمن کی شہد کی بوتلیں پکڑنے والے چیف جسٹس تو ریٹائر ہو گئے شرجیل میمن کا مزید کچھ نہیں بگڑا، پہلے بھی وزیر رہے آئندہ بھی بن سکتے ہیں۔ وزیراعظم کی خواہشات پوری کرنے کے حوالے سے ان کے سرپرستوں پر الزامات تو تھے ہی اب حکومت کی جانب سے بلکہ خود وزیراعظم کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے۔ اسی طرح اینٹی ٹارکوٹکس فورس کے بارے میں شہریار آفریدی فرما رہے تھے کہ یہ پروفیشل فورس ہے جس کے سربراہ میجر جنرل ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ وہ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ فوج یہ سب کررہی ہے۔ وزیراعظم کی معصومیت ثابت کرنے کے خواہش مندوں کا یہ حال ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر خود ہی وضاحتی بیان جاری کر دیتے ہیں۔ فواد چودھری صاحب نے کہا کہ وزیراعظم کو رانا ثنا کی گرفتاری کا علم ہی نہیں تھا۔ ٹی وی چینل مسلسل عمران خان کی تقریر کا وہ حصہ دکھا رہے ہیں جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ رانا ثنا اللہ تمہیں مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا۔ ابھی ایک کام رہ گیا ہے مونچھوں سے پکڑنے کا… شاید عمران یہ ہمت نہ کریں۔ رانا ثنا اللہ کی مونچھوں میں نہ جانے کون سی منشیات لگی ہوں گی ان کو پکڑ کر جیل میں ڈالنا بڑا ’’اوکھا‘‘کام ہو گا۔ بہر حال شہریار آفریدی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پولیس بھی پروفیشنل فورس ہے اور طرح طرح کے بھنڈ کرتی ہے۔ سانحہ ساہیوال کافی ہے۔ فوج اور اس کی ایجنسیاں بھی پروفیشنل ہیں۔ رائو انوار بھی پروفیشنل ہیں۔ ساری عدلیہ پروفیشنل ہے۔ لیکن ان سب نے مل کر ملک کا جو حال کیا ہے اس سے پروفیشنل ہونے کا کوئی تعلق نہیں۔ حکومت میں شامل وزراء اور وزیراعظم خود یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ فوج سب کچھ کررہی ہے۔ آرمی چیف نے وزیراعظم سے ملاقات کی تو یہ تاثر دے دیا گیا کہ آرمی چیف نے وزیراعظم کو تھپکی دی ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔ فوج بہت کچھ کرتی ہے لیکن ہر کام نہیں کرتی۔ بہت سے کام کرنے کے لیے سلیکٹڈ لوگ موجود ہیں۔ بس اکیلے عوام رہ گئے ان کے مسائل جوں کے توں پڑے رہ جائیں گے۔