تبادلہ ’’تحائف‘‘ کا عالمی موسم

262

 

 

عالمی بساط سیاست پر محض چالیں چلی جا رہی ہیں یا واقعی خوش خبریوں کا موسم آکر ٹھیرنے کو ہے کچھ نہ کچھ نیا اور مختلف بہرطور ہورہا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں خوش گوار ہوائیں چلنے کے آثار ہویدا ہیں۔ رواں ماہ عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر امریکا جارہے ہیں اور یہ کم وبیش چار دن پر محیط دورہ ہوگا جس میں امریکی عمران خان کو اور عمران خان امریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس دورے سے پہلے امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بلوچستان میں سرگرم عمل علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرگنائزیشن کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ بی ایل اے کے نام سے قائم یہ تنظیم دوعشروں سے ریاست کے خلاف منظم مسلح کارروائیوں میں مصروف تھی اور تنظیم کی قیادت بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد حیربیار مری اور براہمداغ بگٹی جیسے مشہور بلوچ افراد کے ہاتھوں میں تھی۔ یہی تنظیم نواب اکبر بگٹی کو بھی اپنے ڈیرے سے کوہلو کے غاروں تک کھینچ کر لے گئی اور وہیں ایک خونیں تصادم میں ان کی موت واقع ہوگئی جس کے بعد تنظیم کو اپنی کارروائیوں کو بڑھانے اور بلوچ عوام میں سرایت کرنے کا ایک موقع ہاتھ آگیا۔ امریکا اور ناٹو کے زیر اثر افغانستان کو یہ تنظیم اپنے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتی رہی اور کابل کے صدارتی محل کے قریب ہی براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری کی رہائش گاہوں کا ہونا پس پردہ کھیل کا پتا دیتا تھا۔ پاکستان نے افغان حکومت اور امریکا پر دبائو بڑھایا تو دونوں شدت پسند لیڈر یورپ سدھار گئے اور براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری یورپ میں بیٹھ کر پاکستان توڑنے کے اعلانات کرتے رہے۔ اس سے ان کے بااثر اور بارسوخ ہونے کا پختہ یقین ہوگیا۔ یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو چین اور پاکستان کی مخالفت میں امریکا، بھارت اور افغان حکومت بلکہ کئی خلیجی اور یورپی ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔ افغانستان سے یورپ تک اُڑانیں بھرنا، جنیوا اور نیویارک کے عالمی ایوانوں میں چہل قدمی کرنا اس بات کا ایک اور ثبوت تھا۔
امریکا بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ اور وہاں چین کے عمل دخل سے قطعی ناخوش تھا اور اس نے اپنی ناپسندیدگی کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ بھارت کا دکھ بھی اس کرب میں شامل ہوگیا اور علاقے کے کچھ دوسرے ممالک کے غموں نے نشے کو دوآتشہ کردیا تھا۔ بلوچستان کے مسلح علیحدگی پسند پاکستان پر اچھے اور برے طالبان کی تفریق روا رکھنے کا الزام لگانے والوں کے اچھے ’’طالبان‘‘ تھے۔ جو بندوق افغان طالبان یا کشمیری حریت پسندوں کے پاس شدت پسندی اور دہشت گردی کی علامت تھی وہی بندوق بلوچ علیحدگی پسندوں کے ہاتھ میں قبول اور گوارا تھی اور یہ امریکا اور مغرب کا گہرا تضاد تھا۔ پاکستان پر ہمسایہ ملکوں میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ تلاش کرنے کا الزام لگانے والے خود پاکستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی حمایت کرکے اسٹرٹیجک ڈیپتھ تلاش کررہے تھے۔ پاکستان نے دنیا بھر میں بلوچستان میں سی آئی اے، را اور این ڈی ایس سمیت کئی خفیہ اداروں کی مداخلت کے ثبوت ڈوزیر کی صورت تقسیم کیے اور کلبھوشن یادیو کی صورت میں زندہ ثبوت پکڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اب امریکا کو افغانستان میں پاکستان کی ضرورت درپیش ہے۔ امریکا اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ افغانستان سے اس کا دامن پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر چھڑایا جانا ممکن نہیں۔ پاکستان نے ’’یہ آرزو تھی تجھے گل کے رُوبرو کرتے‘‘ کے انداز میں امریکا کی مشکل کو آسان بنانے کے لیے طالبان کو امریکیوں کے سامنے لابٹھایا ہے۔ عین اس دوران عمران خان کا دورہ امریکا بھی آن پڑا ہے تو امریکا نے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی سب سے بڑی علامت بی ایل اے کو وقت اور حالات کے دھارے کے رحم وکرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سے پہلے چین مسعود اظہر کے معاملے پر سلامتی کونسل میں اپنا ویٹو ختم کر چکا تھا۔ یہ امریکا اور بھارت کے لیے ایک خوش خبری اور تحفے سے کم نہیں تھا کہ عالمی ڈپلومیسی کے درخت سے اُلجھی ہوئی پتنگ آخر کار سلجھ کر نکل ہی آئی۔ اب بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے ساتھ ہی پاکستان نے حافظ محمد سعید پر کئی نئے مقدمات قائم کرنا شروع کیے ان پر خیرات کے پیسوں کو مسلح سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کا مقدمہ قائم کیا جا رہا ہے۔
حافظ سعید اور ان کے ساتھی نظر بند کر دیے گئے ہیں۔ بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا اگر عمران خان کے دورہ امریکا سے پہلے پیش کیا جانے والا تحفہ ہے تو حافظ سعید پر قید وبند اور مقدمات کا نیا سلسلہ جوابی تحفے سے کم نہیں۔ عین ممکن نے عالمی عدالت انصاف کلبھوشن یادیو کے مقدمے میں فیصلہ اس کے حق میں سنادے تو یہ بھارت کے لیے ایک خوش خبری اور تحفہ ہوگا۔ ریاستوں کی ضرورتیں وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں مگر بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دینے کا مطلب ہرگز نہیں کہ امریکا پاکستان اور اس خطے میں اپنے حصے کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ تلاش کرنے سے باز آگیا ہے اور وہ افغانستان میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ تلاش کرنے سے بھارت کو روکنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ بی ایل اے پر پابندی کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ امریکا نے سی پیک کو تسلیم کر لیا ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی نوعیت کو قبول کرلیا ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے گھیرائو کی سوچ اور حکمت عملی سے اعلان برات کیا ہے۔ سردست ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے پاکستان کو امریکا کے وقتی فیصلے پر خوش ہونے کے بجائے آنے والے دنوں اور حالات پر نظر رکھنی چاہیے۔ امریکا بلوچ اسٹرٹیجک ڈیپتھ پر دو قدم پیچھے ہٹ رہا ہے تو وہ پاکستان کے اندر پشتون آبادی میں زیادہ وسیع اور فعال تزویراتی گہرائی دریافت کر چکا ہے یہ محدود اور سیلف سینٹرڈ اور تنہائی اور انفرادیت پسند بلوچ آبادی سے زیادہ بڑا میدان ہے جو پاکستان کے قریہ قریہ شہر شہر سے لے کر طاقتور ریاستی اور فیصلہ ساز اداروں سے ہوتی ہوئی دنیا کے بے شمار ملکوں تک جانے والی لائن ہے۔ امریکا کے میڈیا ہاوسز اس آبادی کے اندر فالٹ لائن تلاش کرکے اسے وسیع کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ پاکستان کی زیادہ بڑی دکھتی رگ ہے۔ یہ بلوچ فالٹ لائن سے زیادہ خطرناک اور پاکستان کی کلائی مروڑنے کا زیادہ موثر انداز ہے۔ اس سارے عمل میں سارے فریق ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ تلاش کی آدھی خواہشات کو ترک کرنے پر آمادہ ہوں تو جنگ وجدل کے موجودہ ماحول میں تبدیلی آسکتی ہے۔ وگرنہ وقتی تحائف کے تبادلوں سے حقیقی تبدیلی خواہش عبث ہے۔