مشکل فیصلے

211

وزیرِ اعظم جنابِ عمران خان نے کہا: ’’اب وقت آگیا ہے کہ ہم مشکل فیصلے کریں‘‘۔ اسی طرح چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’گزشتہ حکومتیں مشکل فیصلوں سے گریز کرتی رہیں، لیکن اب اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے‘‘۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور میڈیا پرسنز سے کہہ چکے تھے: ’’آپ لوگ چھ ماہ تک انتظار کریں یا تو حالات بہت بہتر ہوجائیں گے یا بہت خراب ہوجائیں گے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو پوری اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل ہے اور وہ اس کی پشت پر ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام میں بے چینی کے باوجود قومی سطح پرکوئی احتجاج برپا نہیں ہورہا، صرف سیاست دانوں کے بیانات کی برسات ہے اور یہ ہمارے ہاں معمول کی بات ہے۔ ظاہر ہے مشکل فیصلوں سے مراد ایسے فیصلے ہیں جنہیں عوام ناپسند کریں۔ اصولی طور پر وزیرِ اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف کا موقف درست ہے، یہ وقت آنا ہی تھا، کسی نے کہا تھا: ’’وہ اگلا موڑ جدائی کا، اُسے آنا ہے، وہ آئے گا‘‘۔ سو یہ موڑ آہی گیا، مرزا غالب نے کہا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہم نے قرض سے نجات کا وسیلہ مزید قرض کو بنا رکھا تھا، سو یہ بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا اور وہ وقت آگیا کہ اگر یہی روش جاری رہی تو ہماری قومی آمدنی کا اکثر حصہ اس کی نذر ہوجائے گا، معاشی شرحِ نُمو بتدریج گرتی جائے گی، ترقیاتی منصوبے تو درکنار، واجب الادا قرضوں کی اقساط معِ سود، دفاعی مصارف اور مصارفِ جاریہ کو پورا کرنا مشکل ہوجائے گا، جبکہ حال یہ ہے کہ ان تمام شعبوں کے مصارف میں آئے روز افراطِ زر اور پاکستانی روپے کی قوتِ مبادلہ میں کمی کے ساتھ اضافہ ناگزیر ہے، سو اب ہم اس کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں اور بَرت بھی رہے ہیں۔
2016 میں عمران خان سے ایک ملاقات میں، میں نے کہا تھا: اس وقت تو حکومت دوسروں کے پاس ہے اور سارا وبال اُن کے سر پر ہے، لیکن کل آپ کی باری بھی آسکتی ہے، سو گشتی قرضوں کے مسئلے کا آپ کو بھی سامنا کرنا پڑے گا اور اس آفت سے نکلنے کا طریقہ سو فی صد بلنگ اور لائن لاسز پر قابو پانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے‘‘، میں نے یہ بھی کہا تھا: ’’حکومت اگر بعض زیریں طبقات کو بجلی کے کچھ یونٹ مفت دینا چاہتی ہے، تو اس کے لیے بھی بلنگ لازمی ہونی چاہیے تاکہ پتا چلے کہ جتنی بجلی پیدا ہورہی ہے، وہ پوری کی پوری قانونی صارفین تک پہنچ رہی ہے اور بجلی چوری کے امکانات کا سدِّباب کردیا گیا ہے‘‘۔ اب حکومت اس طرف آرہی ہے تو یہ ناپسندیدہ ہونے کے باوجود حقیقت پسندانہ اور معقول بات ہے، ورنہ اوور بلنگ کر کے اور بجلی کے میٹروں میں جعل سازی کر کے سارا یا اکثر وزن اُن پر ڈالاجاتا رہا ہے جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں، یہ سراسر غیر منصفانہ بات ہے۔
اگرچہ قومی معیشت کو وقتی دبائو سے نکالنے کے لیے دوست ممالک سے سود پر قرضے حاصل کیے جاچکے تھے، لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف سے ڈیل کے صبر آزما اور پیچیدہ مرحلے سے گزرنا پڑا اور اُن کی سخت شرائط کی کڑوی گولی نگلنی پڑی۔ آئی ایم ایف سے ڈیل اس لیے ضروری تھی کہ پاکستانی معیشت پر دوسرے عالمی مالیاتی اداروں اور حکومتوں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ کا اعتماد قائم ہو، کیوںکہ بیش تر ادارے امریکا کے زیرِ اثر ہیں اور امریکی حکومت کی آشیرباد کے بغیر آئی ایم ایف سے ڈیل ممکن نہیں تھی۔ آئی ایم ایف تو سوا تین سال کے دوران 6ارب ڈالر دے گا، لیکن مشیرِ خزانہ نے کہا: بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے منصوبہ جاتی امداد، بجٹ سپورٹ اور تجارتی قرض کی صورت میں آنے والے برسوں میں 38ارب ڈالر ملیں گے‘‘۔ ظاہر ہے یہ سب قرض سودی ہیں۔ سرِدست یہ وہی علاج ہے جو ماضی کی حکومتیں کرتی چلی آئی ہیں اور اسی حکمتِ عملی کے نتیجے میں ملکی معیشت کا یہ حال ہوا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط میں خسارے میں جانے والے قومی اداروں کی نجکاری، مصارفِ جاریہ میں کمی، بیرونی زرِ مبادلہ حاصل کرنے کی استعداد میں اضافہ اور مختلف شعبوں میں زرِ اعانت کو کم کرنا ہے۔ اگرحکومت ناگزیر طور پرکسی شعبے کو زرِ اعانت دینا چاہتی ہے، تو اُسے اپنے بجٹ کا حصہ بنائے تاکہ یہ ریکارڈ پر ہو اور اس میں فنکاری نہ دکھائی جائے۔ ان تفصیلات کا مطلب یہ ہے کہ فوری طور پر معیشت متزلزل تو نہیں ہوگی، لیکن معیشت کی گاڑی کو ترقی کی پٹڑی پر رواں دواں رکھنے کے لیے یہ مستقل اور دیرپا حل نہیں ہے۔ ایسی پالیسیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو سانس لینے کا موقع مل جائے، وہ دبائو سے نکل آئے، لیکن پھر یہ بار آنے والی حکومتوں کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت پہلا نعرہ یہی لگاتی ہے کہ خزانہ خالی ہے، ملک کنگال ہوگیا ہے، پیش رو حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور پھر وہ نیا کشکول لے کر بازار میں نکلتی ہے۔
زرِ مبادلہ کے توازن کو بہتر بنانے کا طریقہ برآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہے، یہ طویل اور دیرپا حکمتِ عملی کا متقاضی ہے، اس کا کوئی شارٹ کٹ نسخہ نہیں ہے۔ ڈالر کے مقابل روپے کی قیمت میں گراوٹ کے سبب درآمدات کا حجم ویسے بھی بڑھتا رہتا ہے اور اب زیادہ تیز رفتاری سے بڑھے گا، کیوںکہ اب آئی ایم ایف سے پیمان باندھا گیا ہے کہ روپے کی قدر کو اسٹیٹ بینک کے کنٹرول سے نکال کر مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے گا اور وہ اپنی قدر خود متعین کرے گا، اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ معیشت کے مکمل استحکام تک روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
درآمدات میں کمی اگر اشیائے تعیُّش کی صورت میں کی جائے تو یہ مستحسن بات ہے اور ایسا کرنا چاہیے، ہمارے ہاں تو پرفیومز، میک اپ اور زیب وزینت کی اشیاء پر بے تحاشا زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے، حالانکہ اس کے بغیر بھی گزارا ممکن ہے، یہ صرف بالائی طبقے اور اشرافیہ کے اَلَلّے تَلَلّے ہیں اور اس کی قیمت زرِمبادلہ کی صورت میں پوری قوم کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ مینوفیکچرنگ اور برآمدی اشیاء کی ویلیو ایڈیشن کے لیے درکار اشیاء کی درآمد پر پابندی لگائی جائے تو اس سے توازنِ ادائیگی کو نقصان ہوگا اور برآمدی صلاحیت متاثر ہوگی، لہٰذا درآمدات پر کنٹرول کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے دانش مندی سے کام لینا ہوگا، یعنی اس کے لیے ترجیحات کا تعیُّن قومی مفاد میں کرنا ہوگا۔ اسی طرح نقصان میں جانے والے صنعتی اداروں کے بارے میں بہتر پالیسی یہ ہے کہ انہیں حکومتی کنٹرول سے آزاد کیا جائے اور مالیاتی سپورٹ دے کر نفع بخش بنایا جائے، اس سے ملازمین کی چھانٹی نہیں ہوگی، بے روزگاری میں اضافہ نہیں ہوگا، بلکہ ممکن ہے کہ بہتر کارکردگی کے نتیجے میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوں۔ مگر نجکاری کی صورت میں بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا جو اب بھی الارمنگ پوزیشن میں ہے۔ ماضی میں پی ٹی سی ایل جیسے نفع بخش اداروں کو بے تدبیری سے پرائیوٹائز کیا گیا اور اس کے واجبات اب تک وصول نہیں ہوئے، جبکہ خریدنے والوں نے اداروں کا برا حال کردیا اور منافع سمیٹ لیے، یہی حال کے ای ایس سی کی نجکاری کا ہوا اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ لہٰذا ایسے صنعتی کاروباری ادارے جو معیشت پر بوجھ ہیں، ان کے بارے میں سوچ سمجھ کر پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ دودھاری تلوار ثابت ہوگی۔
ہماری دانست میں سب سے مشکل فیصلہ اپنے وسائل کے اندر جینے کا ہے، یعنی ’’چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا‘‘۔ بجٹ سپورٹ کی مد میں قرض لینے کے معنی یہی ہیں کہ ہم اپنے پائوں اپنی چادر سے زیادہ پھیلانا چاہتے ہیں، لہٰذا اسے بڑا کرنے کے لیے مانگے تانگے کے کٹ پیس جوڑنے پڑتے ہیں، یہ کوئی تجدیدی یا انقلابی پالیسی نہیں ہے، بلکہ روایتی پالیسی ہے جو کئی عشروں سے چلی آرہی ہے۔ انکم ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کی پالیسی اچھی بات ہے اور حکومت اس کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے، جوقابلِ تحسین ہے، لیکن یہ اقدام بھی حکمتِ عملی کے ساتھ اور سائنٹفک انداز میں ہونا چاہیے تاکہ صنعتی اور کاروباری حلقوں میں خوف پیدا نہ ہو، معیشت جامد وساکت نہ ہوجائے، کیوںکہ اس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ انکم ٹیکس کا دائرہ پھیلانے کے ساتھ ساتھ صنعتی و کاروباری حلقوں اور عوام کا اعتماد بھی قائم رکھنا ضروری ہے۔
حکومت کے ہر اقدام کی پر زور مخالفت کرنا ہماری سیاست کی ایک جاری قدر ہے، موجودہ حکمران بھی ماضی میں یہی کرتے رہے ہیں، بلکہ اب بھی وہ ماضی سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک قومی پالیسی مرتب کی جائے، جسے ملک کی تمام سیاسی بالخصوص پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی جماعتیں اپنائیں اور ملکی مفاد کو سیاسی اور گروہی مفادات سے بالاتر رکھیں۔ مگر اس کے لیے پہل حکومتِ وقت کو کرنی پڑتی ہے اور حزبِ اختلاف سے مفاہمت یا سنجیدہ مکالمہ اُن کے مزاج کا حصہ نہیں ہے، بلکہ وزیرِ اعظم تو اُن سے آنکھیں چار کرنے اور ملنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ ہماری طرح اس وقت برطانیہ بھی بریگزٹ کے مسئلے میں بحران سے دوچار ہے، یہ اُن کے لیے قومی مسئلہ ہے، اس لیے برطانوی پارلیمنٹ میں اس پر کئی بار رائے شماری ہوئی اور حکمراں جماعت کنزرویٹیو پارٹی کے ارکان نے بھی بعض امور پر اپنی وزیرِ اعظم کے خلاف ووٹ دیا اور بالآخر انہیں انتہائی تاسّف کے ساتھ مستعفی ہونا پڑا، لیکن حکومت اب بھی قائم ہے اور ٹوری پارٹی اپنے اندر سے متبادل وزیرِ اعظم منتخب کرنے کے عمل سے گزر رہی ہے، سو قوموں کی زندگی میں بحران آتے رہتے ہیں، لیکن بیدارمغز، زندہ اور غیور قومیں مشکل سے نکلنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتی ہیں، ہمیشہ بندگلی میں پھنسی نہیں رہتیں۔
اسی طرح ہمارے وطنِ عزیز کے نظام میں جو خرابیاں در آئی ہیں، اُن سے نجات کے لیے قومی اتفاقِ رائے سے قانون سازی اور بعض امور میں آئینی ترمیم کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے، اس کے لیے اتفاقِ رائے چاہیے۔ لیکن یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ایک دوسرے کی پالیسیوں اور طرزِ حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا جائے، سیاسی اختلاف کو شخصی عداوت نہ بنایا جائے، احتساب کے عمل کو سیاسی آلودگی سے بالاتر رکھا جائے تاکہ اس پر اعتماد قائم ہو۔