3 جولائی کو جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے سنگین اقتصادی بحران میں گھرے پاکستان کو 6 ارب ڈالر قرض دینے کا اعلان کیا تو پاکستان کے اعیان اقتدار نے خوشی کے مارے ایسے بغلیں بجائیں تھیں کہ جیسے یہ غیب سے ان پر من و سلویٰ اترنے کی نوید ہے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے قرض کے اس فیصلہ پر عوام کو مبارک باد پیش کی اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا شکریہ ادا کیا۔ تہنیت اور طمانیت کی اس لہر کے دوران میں ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ ہم یہ قرض کس ادارے سے لے رہے ہیں، یہ ادارہ بنیادی طور پر کن مقاصد کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اس کے پیچھے کون سی قوت ہے اور اس کے کیا مفادات ہیں۔
دوسری عالم گیر جنگ کے آخری دنوں میں جب نئے عالمی نظام کے تقشے ابھر رہے تھے امریکی سامراج نے عالمی معیشت پر اپنا تسلط جمانے اور اس کو اپنا دست نگر بنانے کے لیے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک قائم کیا تھا۔ ان اداروں کے قیام کے پیچھے فوجی حکمت عملی کار فرما تھی یہی وجہ ہے کہ عالمی بینک امریکا کی وزارت دفاع کی فوجی شاخ کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور 1941 سے 1945 تک عالمی بینک کے پہلے صدر، امریکا کے نائب وزیر جنگ، جان میک لائے تھے۔ اس کے بعد 1968 سے 1981 تک امریکا کے سابق وزیر دفاع رابرٹ میک نمارا صدر رہے اور اسی طرح نائب وزیر دفاع پال وولفووٹز اور نائب وزیر دفاع رابرٹ زیولک عالمی بینک کے صدر رہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سربراہ البتہ مختلف مغربی ممالک سے رہے ہیں لیکن امریکا کی منظوری کے بغیر یہ ادارہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا کیوں کہ امریکا کو اس ادارے کے فیصلوں پر ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔
عالمی بینک نے شروع میں ترقی پزیر ملکوں کی معیشت کو اپنے دام میں پھانسنے کے لیے، ان ملکوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور جب ان ملکوں کی معیشت قدرے مستحکم ہو گئی تو عالمی بینک نے سود پر قرضے دینے پر اصرار کیا جس کے بعد عالمی بینک ان ملکوں میں صرف ان صنعتوں کے بنیادی ڈھانچے کے لیے قرضے دیتا رہا جن سے امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں کی صنعتوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ مثلاً ان ملکوں کی معدنی دولت لوٹنے کے لیے سڑکوں، بندرگاہوں اور ذرائع مواصلات کے فروغ کے منصوبوں کے لیے قرضے دیے۔ دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ مالی مشکلات میں گھرے ملکوں کو غیر ملکی کرنسی خاص طور پر ڈالر میں قلیل المعیاد قرضے دیتا ہے تاکہ ان ملکوں میں غیر ملکی قرضوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ آئی ایم ایف کسی ملک کی کرنسی کے فروغ کے منصوبوں کے لیے امداد نہیں دیتا بلکہ ڈالر اور غیر ملکی کرنسی میں قرضہ دیتا ہے تاکہ یہ ملک امریکا اور دوسری مغربی کمپنیوں کو ان کی خدمات کا معاوضہ غیر ملکی کرنسی میں ادا کر سکیں۔ اور پھر جب یہ ملک یہ قرضے ادا نہ کر سکیں تو انہیں معیشت میں کفایت شعاری پر مجبور کیا جاتا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خسارے سے بچانے کے لیے حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اور جب مقروض ممالک اپنے قرضے ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ان پر سود کی شرح بڑھانے پر دبائو ڈالا جاتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک کے ساتھ امریکا کی خوراک کی سامراجیت کا محافظ سمجھا جاتا ہے اور ترقی پزیر ملکوں کو امریکا کے اناج اور دوسری اشیا کی فصلوں کا دست نگر رکھنا چاہتا ہے لہٰذا یہ دونوں ادارے ان ملکوں میں زرعی اصلاحات کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرضہ کا جو پیکیج منظور کیا ہے اس میں زرعی اصلاحات کا کوئی ذکر نہیں۔ زیادہ زور اگلے چند ماہ کے دوران پاکستانی روپے کی شرح قیمت میں پندرہ سے بیس فی صد تک کمی اور سود کی شرح میں پندرہ فی صد تک اضافہ پر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں گیس اور بجلی کے ٹیرف میں 20 سے 25 فی صد کا اضافہ بھی شامل ہے۔
آئی ایم ایف کے قرضے کے بارے میں یہ شور تو بہت مچا ہے کہ پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا وافر قرضہ ملے گا لیکن اس رقم میں سے پاکستان کو اگلے تین سال کے دوران 4 ارب 35 کروڑ پچاس لاکھ ڈالر واپس اد ا کرنے ہوں گے تو حقیقت میں پاکستان کو صرف ایک ارب 65 کروڑ ڈالر ملیں گے۔ کیا صحیح معنوں میں آئی ایم ایف کا یہ قرضہ مبارک بادک کا مستحق ہے؟ کیا واقعی اس قرضے سے پاکستان کے سارے مالی دلدر دور ہو جائیں گے یا پاکستان قرضوں کے نئے جال میں الجھ جائے گا۔
تین سال قبل پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین سال کے لیے 6 ارب چالیس کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ اس قرضہ کی بدولت پاکستان کے مالی مسائل حل ہو جائیں گے لیکن اس کے باوجود پاکستان بین الاقوامی قرضوں کی دلدل میں اور دھنس گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین سال قبل جب پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 ارب چالیس کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا تھا تو اس وقت پاکستان پر بین الاقوامی قرضوں کا بوجھ 75 ارب ڈالر تھا لیکن پچھلے تین سال میں، آئی ایم ایف کے قرضہ کے باوجود پاکستان، ایک کھرب 5 ارب 84 کروڑ دس لاکھ ڈالر کا مقروض ہوگیا ہے۔ کیا کوئی ہوش مند یہ کہے گا کہ 1950سے لے کر اب تک آئی ایم ایف کے 21 قرضوں سے پاکستان کے مالی مسائل حل ہوئے ہیں یا پاکستان اور زیادہ سنگین مسائل کے جال میں پھنس گیا ہے۔ ہم پاکستانی اور ہمارے اعیان اقتدار کیوں نہیں سمجھتے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک ہمارے مسائل کا حل نہیں ہیں بلکہ یہ در اصل امریکی سامراجیت کے ستون ہیں جن میں پاکستان، پاکستان کی معیشت اور پاکستان کے عوام دب کر رہ گئے ہیں۔