اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیراحمد) قومی اسمبلی اور سینیٹ کے محاذ پرحکومت اور اپوزیشن کے درمیان نئی اعصابی جنگ چھڑ چکی ہے ،اپوزیشن نے ملکی سیاسی صورت حال پر غور کے لیے قومی اسمبلی کااجلاس ریکوزیشن کیا ہے یہ اجلاس اب 16 جولائی کو ایک روز کے لیے بلایا جارہا ہے اور قومی اسمبلی کا باقاعدہ اجلاس26 جولائی کو ہوگا، ریکوزیشن والے اس اجلاس کے لیے حکومت کا مؤقف ہوگا کہ کورم پورا کرنا اپوزیشن کی ذمے داری ہے لہٰذا حکومت اس اجلاس کے لیے کورم پر کڑی نظر رکھے گی۔ قومی اسمبلی کے 342کے ایوان میں کورم کے لیے کم از کم86 ارکان کی حاضری ضروری ہے اسی طرح اپوزیشن نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرکے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے ،اس تحریک پر رائے شماری خفیہ طریقے سے ہونی ہے اسی لیے حکومت بھی پر امید ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنا دے گی ،اس کے لیے ابھی سے خفیہ طریقے سے جوڑ توڑ بھی شروع ہوچکا ہے ،مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی اپنے اپنے ارکان پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ان کی سرگرمیاں نوٹ کی جارہی ہیں۔ اپوزیشن کا خیال ہے سینیٹ میں اسے 36 ارکان کی برتی حاصل ہے لیکن یہ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے رائے شماری کے نتائج سے ہی پتا چلے گا کہ حقائق کیا ہیں سینیٹ میں اس وقت آزاد ارکان اور چھوٹی جماعتوں کے ارکان اہمیت اختیار کر چکے ہیں جن سے رابطے کیے جارہے ہیں اگر یہ تحریک ناکام ہوگئی تو سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کو ہوگا کہ ان کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک آسکتی ہے۔
اعصابی جنگ