وفاقی کابینہ میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کے بیرونی دوروں کی ایک ہوش رُبا تفصیل بیان کی گئی ہے جس کے مطابق سابق صدر آصف زرداری نے اپنے پانچ سالہ عہد میں ایک سو چونتیس غیر ملکی دورے کیے جن پر ایک سو بیالیس کروڑ کی لاگت آئی جبکہ وزیر اعظم میاں نوازشریف نے چار سال کے دوران بیانوے غیر ملکی دورے کیے جن پر ایک سو تراسی کروڑ کی لاگت آئی۔ آصف زرداری کے دوروں کا مجموعی دورانیہ دوسو ستاون دن جبکہ نوازشریف کے دوروں کا مجموعی دورانیہ دو سو باسٹھ دن بنتا ہے۔ آصف زرداری نے دبئی کے اکیاون اور نوازشریف نے لندن کے چوبیس دورے کیے۔ حد تو یہ ایک سال کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی دوروں کا ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی۔ ان دوروں میں حکمرانوں کے ساتھ مستفید ہونے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ان میں سرکاری اور نجی کی کوئی تفریق نہیں گویا کہ حکمران بننے کا مطلب ہی قومی خزانے پر مستقل بوجھ بننا ہے اور حکمران بننے کے بعد نجی زندگی کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر بیتے ہوئے دس سال سے تھوڑا پیچھے جا کر جنرل پرویز مشرف اور ان کے زیر سایہ وزرائے اعظم کے دوروں کی تفصیل بھی سامنے لائی جاتی تاکہ عام آدمی کو موازانہ کرنے میں آسانی ہوتی۔
بیرون ملک دورہ کسی بھی حکمران کا صوابدیدی اور قانونی اختیار ہوتا ہے اور عہدہ ومنصب اسے یہ حق دیتا ہے مگر دورے کا ٹھوس جواز ہونا بھی لازمی ہوتا ہے کیوںکہ ان دوروں کے لیے جو رقم خرچ ہوتی ہے وہ عوام کی ٹیکسوں سے جمع ہوتی ہے۔ اس لیے بیرونی دوروں کے لیے ٹھوس جواز اور احتیاط لازم ہوتی ہے۔ صرف آصف زرداری اور میاں نواز شریف ہی کی بات نہیں ماضی میں اصراف، نمود ونمائش، فضول خرچی ہمارا قومی شعار رہا ہے۔ ہمارے مقابلے میں بھارت نے قناعت اور سادگی کو اپنایا کر اپنی معیشت کو بہتر بنایا۔ انہوں نے ایک مدت تک ’’میڈ ان انڈیا‘‘ چیزوں کو فروغ دیا۔ اس کے لیے کڑے فیصلے کیے اور آج اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ جب بھارت کفایت شعاری اور سادگی کی راہ پر چل رہا تھا تو ہم مصنوعی چکا چوند کا شکار تھے۔ بھارت کے حکمران جن گاڑیوں کو استعمال کرتے تھے ان پر ہمارے وزراء اپنے پی آر او کو بٹھانا بھی پسند نہ کریں۔ جب اپنے حکمرانوں کی امپورٹڈ نیلی پیلی ٹائیوںکے مقابلے میں بھارتی حکمران طبقات کے لباس کی سادگی آج بھی متحیر کردیتی ہے۔ 2003 میں بھارت کے تین ہفتے کے ایک سفر میں دہلی کے چانکیہ پوری علاقے میں ان کے وزراء اور کئی دوسرے اعلیٰ حکام
جن میں بھارت کی قائم کردہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ رام جیٹھ ملانی، مولانا ابوالکلام آزاد کی نواسی اور اس وقت راجیا سبھا کی وائس چیرپرسن نجمہ ہبت اللہ کی رہائش گاہوں پر جانے کا اتفاق ہوا تو سادگی در ودیوار سے ٹپک رہی تھی۔ وہ ہماری طرح مقروض بلکہ نسل در نسل مقروض بھی نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ان کا کلچر قومی خزانے کو احتیاط سے استعمال کرنے کی گواہی دے رہا تھا۔ جس طرح ایک پاکستان کو دبئی جا کر ایک نئی دنیا میں پہنچنے کا احساس ہوتا تھا اسی طرح ایک بھارتی شہری کو پاکستان آکر ایک الگ دنیا میں آنے کا احساس ہوتا تھا کیوںکہ اس وقت پاکستان کی منڈیاں جاپانی، تائیوانی، کورین اور روسی مصنوعات سے بھری ہوتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مصنوعات بھارت کی تیار کردہ مصنوعات کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور میعاری ہوتی تھیں اس لیے ایک بھارتی کا پاکستان میں ان مصنوعات کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہونا فطری تھا۔
بھارت اندر ہی اندر خود کفالت اور خود انحصاری کی راہ پر چلتا رہا اور ہم جس عسکریت کو بے ہنگم اور غیر منظم بناتے رہے وہ ہماری قومی شناخت اور قومی معیشت کے لیے دیمک ثابت ہوتی رہی۔ یہاں تک ایک مرحلے پر یہی پالیسی دہشت گردی کا عفریت بن کر خود ہمی پر ٹوٹ پڑی جس سے سرمایہ کار بھاگ گئے، سیاح گھبر ا گئے، بیرونی پہچان پر بدنامی کا غلبہ ہوگیا اور اسی کے نتیجے کے طور پر قومی معیشت کی حالت مریض جاں بہ لب کی سی ہو گئی آئی ایم ایف پر ہمارا انحصار بڑھتا جا رہا تھا اور ہم قرض در قرض کی دلدل میں دھنستے جا رہے تھے۔ قرض کی مے پر ہمارے حکمران اور بااثر طبقات کی عیاشیاں جاری رہیں جس سے مجموعی طور پر اصراف، نمود ونمائش، فضول خرچی، قومی خزانے اور املاک کو امانت سمجھنے کا تصور کمزور اور آخر کار عنقا ہو کر رہ گیا۔ ہمارے حکمرانوں نے قومی خزانے کو حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ کے محاورے کو عملی شکل میں پیش کیا۔ انہوں نے قومی خزانے پر عمرے اور حج بھی کرائے اور حد تو ٹپ کی مد میں بھی کروڑوں روپے پھونک دیے۔
یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر ابن بطوطہ مزاج سیر وسیاحت کے دلدادہ حکمرانوں کے دوروں سے ملک وقوم کو کیا فائدہ پہنچتا تھا۔ حکمرانوں کے دورے، بھاری بھرکم وفود کے ساتھ سیروسیاحت، سرکاری حج اور عمرے یہ سب ایک مخصوص ذہنیت اور کلچر کا ثبوت ہے اور یہ ذہنیت اور کلچر ایک دن میں وجود میں آیا نہ ہی کسی ایک شخص نے پیدا کیا۔ یہ برسوں کے سفر میں ہمارے مجموعی قومی اور سماجی رویوں سے تشکیل پاتا رہا۔ اب اس عمل کو ریورس گیئر لگانا آسان نہیں۔ یہ ایک جمے جمائے نظام اور کلچر کے ساتھ جنگ لڑنے کے مترادف ہے۔ جلد یا بدیر یہ جنگ لڑنا پڑے گی۔ اس پالیسی سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی اب ممکن تو نہیں مگر آنے والے دنوں کے لیے کوئی اچھی اور قابل تقلید مثال قائم ہو توہمارا سماجی اور معاشی دیوالیہ پن دور کرنے میں کچھ مدد ضرور ملے گی۔