قول و فعل کا تضاد!

464

ہمارا ایک بڑا قومی المیہ یہ ہے کہ صاحب ثروت اور صاحب حیثیت افراد کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ طبقے مذہبی اصولوں اور انسانی جذبوں کی زبانی کلامی تو بہت تعریف کرتے ہیں مگر عملاً اپنے مفادات ہی کو فوقیت دیتے ہیں۔ ہارون آباد بہاولنگر سے کچھ دور ایک چھوٹا سا شہر ہے یہاں چائے کی پتی اور صابن بنانے کی ایک فیکٹری ہے جس کی مصنوعات بہت معروف ہیں، مگر ان کے نرخ آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ ہارون آباد بھارتی سرحد کے قریب واقع ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سرحدی شہر کی مصنوعات بھارت کی مصنوعات سے بہت مہنگی ہیں، بھارت میں 100 گرام چائے کا جو پیکٹ بیس روپے میں فروخت ہوتا ہے ہمارے ہاں اس کی قیمت 100 روپے سے 120 ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاک بھارت میں تیار ہونے والی مصنوعات میں اتنا فرق کیوں پایا جاتا ہے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ عوام کو یہ باور کراتا رہتا ہے کہ تیار ہوجائو۔ مہنگائی کا سونامی تمہاری طرف بڑھ رہا ہے اور ایک محب وطن شہری کے ناتے تم نے اس کے سامنے سینہ سپر ہونا ہے۔
گزشتہ دنوں ہارون آباد کی چائے کی کمپنی کے چیئرمین نے ایک اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ ان کی فیکٹری اخلاص و محبت کے دیپ جلانے کی روایت پر ہمیشہ قائم رہے گی۔ ہماری کوشش ہے کہ عوام کو جتنی سہولتیں اور مراعات فراہم کرسکیں اس میں کبھی کوتاہی کے مرتکب نہ ہوں کیوں کہ ہمارا دین ہمیں انسانوں سے محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔ رسول پاکؐ اور بزرگان دین نے ہمیشہ ہمیں یہ تلقین کی ہے کہ خدمت خلق بہت بڑی عبادت ہے۔ ہم نے امسال بھی رمضان المبارک میں مدنی افطار دستر خوان کی روایت کو برقرار رکھی اور روزانہ ہزاروں روزے داروں کے لیے افطار پارٹی کا اہتمام کیا۔ رمضان المبارک میں افطار دسترخوان ایک اچھی روایت ہے اور بہت سے ادارے اور صاحب ثروت لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ محلے کی مساجد میں بھی اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ دیگر ممالک میں مذہبی تہواروں پر صارفین کو سہولت اور رعایت دینے کی جو روایت ہے وہ ہمارے ہاں کیوں ناپید ہے۔ خیبرپختونخوا کا ایک سکھ دکاندار رمضان المبارک میں روز مرہ استعمال ہونے والی اشیا میں تیس فی صد کمی کردیتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک میں وہ منافع نہیں دعائیں لیتا ہے کیوں کہ دعائیں پیسوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ امسال بھی اس نے رمضان المبارک کے احترام میں تیس فی صد قیمتیں کم کردیں، بعض اشیا ایسی تھیں جو ہول سیل سے بھی کم نرخ پر فروخت کی گئیں ۔ یہ ایک اچھی اور قابل تحسین روایت ہے۔ خدا توفیق دے تو اس پر ہر تاجر اور دکاندار کو عمل کرنا چاہیے مگر بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ہاں عموماً اس مبارک موقع پر زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس غالب آجاتی ہے۔ قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا جاتا ہے، ناقص اور گلے سڑے پھل فروخت کرنا معمول کی بات ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر نیک جذبات پر ہوس کیوں غالب آجاتی ہے۔ خیبرپختونخوا کا ایک غیر مسلم دکاندار رمضان المبارک میں عام نرخوں کی قیمت میں تیس فی صد کمی کردیتا ہے تو مسلمان تاجر اور دکاندار ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ ہارون آباد میں تیار ہونے والی چائے بہت خوش ذائقہ بہت خوش رنگ ہوتی ہے سو، اس کی مقبولیت میں دن رات اضافہ ہورہا ہے اگر یہ اضافہ اس طرح ہوتا رہا تو جو لوگ دن میں چار بار چائے پیتے ہیں دو بار پیا کریں گے، چند برس قبل چائے کا جو پیکٹ ایک سو بیس روپے میں فروخت ہوتا تھا اب اس کی قیمت چار سو پچاس روپے ہے۔