ایک پاکستانی گانے کے بول ہیں ’’آئے ہو ابھی… بیٹھو تو سہی… جانے کی باتیں جانے دو‘‘۔ حماد اظہر کے معاملے یوں ہوا ’’آئے ہو ابھی۔ بیٹھو تو سہی۔ چلو باہر نکلو‘‘۔ حماد اظہر وہ شخص ہے جو ٹی وی چینلوں پر تحریک انصاف کا دفاع کرتا رہا ہے حالاںکہ اس حکومت کی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ کا دفاع کرنا آسان کام نہیں ہے۔ وہ لوگ جو برسوں سے ٹی وی چینلوں پر پی ٹی آئی کا دفاع کرتے رہے ہیں ان کی حالت بھی اِن دنوں اسکول کے اُن بچوں جیسی ہے حفاظتی ٹیکوں کے نام پر ایک کمرے میں ڈاکٹر جن کی تشریف پر انجکشن لگا رہا تھا لیکن وہ کمرے سے بازو مسلتے ہوئے باہر نکل رہے تھے۔ حقیقت سب جانتے ہیں لیکن کوئی بھی سچ سے آنکھیں ملانے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان جس دانش مندی سے حکومت چلارہے ہیں حماد اظہر کا معاملہ اس کا ثبوت ہے۔ حماد اظہر کا کارنامہ بجٹ تقریر ہے۔ عمران خان ان کی بجٹ تقریر سے اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے انعام کے طور پر حماد کو ریونیو ڈویژن کا انچارج بنادیا گیا۔ غلطی یہ ہوئی کہ یہ جوتا انہوں نے حفیظ شیخ کے پائوں سے نکال کر حماد اظہر کے پائوں میں ڈالا تھا۔ حفیظ شیخ آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں۔ جس طرح ڈاکٹروں کو صحت مند لوگ اچھے نہیں لگتے اسی طرح آئی ایم ایف کو کسی ملک کی تندرست معیشت اچھی نہیں لگتی۔ جسے خراب اور بدحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے حفیظ شیخ جیسے ماہرین کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ ماضی میں انہیں شیریں مزاری امریکا کا ایجنٹ کہتی رہی ہیں۔ وہ آج بھی ایسا ہی سمجھتی ہیں کیوںکہ تاحال انہوں نے اپنے اس ٹوئٹ کی تردید نہیں کی۔ امریکا اب اپنے دشمن ممالک سے جنگ میں نہیں الجھتا حفیظ شیخ جیسے گھس پیٹھیوں کے ذریعے ان کے اقتصادی فیصلوں اور معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ نے ایک موقع پر کہا تھا ’’اقتصادی طور پر کسی ملک پر گرفت کرنے کی حکمت عملی سے ایک نیا میدان جنگ معرض وجود میں آیا ہے۔ اب امریکی فوجیوں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے تاریخ کی نظر میں مجرم بننے کی ضرورت رہی ہے‘‘۔ تو جناب ریونیو ڈویژن جیسے اہم شعبے کو پاکستان کے وزیراعظم کی مرضی پر تو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ جس طرح شہر کے معززین کو طوائفیں اچھی طرح جانتی ہیں اسی طرح ہمارے حکمرانوں کے حوصلوں کو امریکا اچھی طرح جا نتا ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ جیسے ہی حفیظ شیخ نے اس تبدیلی پر آنکھیں دکھائیں عمران خان کا حوصلہ پست ہوگیا۔ انہوں نے حماد اظہر سے عہدہ واپس لے لیا حالاںکہ جس شیروانی میں انہوں نے حلف اٹھایا تھا ابھی انہوں نے اتارنے کے لیے اس شیروانی کے بٹن بھی نہیں کھولے تھے۔ یہ ٹھیک ہے حماد اظہر کی کارکردگی پر عمران خان کچھ دیر کے لیے ان کے گرویدہ ہوگئے تھے لیکن اس محبت سے امریکا کا نمائندہ حفیظ شیخ ناراض ہو ان کی حکومت خطرے میں آئے عمران خان اتنے بے وقوف نہیں ہیں۔
باز رہتے ہیں جو محبت سے
ایسے احمق ذہین ہوتے ہیں
عمران خان کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے ساری زندگی بے حسابی میں گزاری ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد ان کا اولین واسطہ معیشت سے پڑا جو حساب کتاب کی متقاضی ہے۔ حساب میں رہنے کے لیے وزیر وزرا اور مشیروں کی فوج جمع کر رکھی ہے لیکن پھر بھی بے حسابی ان پر غالب آجاتی ہے۔ اس پر میڈیا ان کے لتّے لینے لگتا ہے۔ یوسفی صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے ’’دوزخ میں گنہگار عورتوں کو ان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے‘‘۔ عمران خان کو میڈیا ان کی پرانی تقاریر کے کلپس دکھاتا رہتا ہے۔ آج اگر عمران خان یہ کہتے ہیں کہ انہیں زیادہ میٹھے والی چائے پسند ہے تو میڈیا ان کی کوئی ایسی تقریر ڈھونڈ کر سامنے لے آتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہوتے ہیں ’’اوئے نواز شریف تم چائے میں ایک چمچ کی جگہ دو چمچ چینی ڈالتے ہو یہ کرپشن ہے۔ اوئے نواز شریف تم ٹشو پیپر زیادہ استعمال کرتے ہو تمہارے اندر ایک چور اور ڈاکو چھپا ہوا ہے‘‘۔ تو کہنا یہ ہے کہ عمران خان آج کل میڈیا سے بہت تنگ ہیں جو ان کے خوف سے حاصل کردہ احترام کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ جس طرح وہ سیاست دانوں پر قابو پانے کے لیے نیب کو استعمال کرتے ہیں اسی طرح میڈیا پر قابو پانے کے لیے نیپرا کو استعمال کرتے ہیں۔ نیپرا نے گزشتہ دنوں تین ٹی وی چینلوں کو اس طرح بند کردیا جیسے گھر کی بجلی کا بٹن بند کیا جاتا ہے نہ کوئی نوٹس نہ کوئی وجہ۔ چینلز کیا کریں گے حد سے حد عدالتوں میں چلے جائیں گے۔ انصاف کے معاملے میں ہماری عدالتیں جس طرح ایکپسپوز ہوئی ہیں اللہ معاف کرے۔ ججوں کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنے نفس کو ما رو وہ نفس کے بجائے ضمیر کو مار بیٹھے ہیں۔ ایک شخص کو برباد کرنے کے لیے عدلیہ کو بے توقیر کردیا گیا ہے۔ ہماری عدالتیں طاقتوروں کی قیدی بن کر رہ گئی ہیں۔
ہمارے ملک میں ہر طاقتور کا اپنا جج ہوتا ہے لیکن ججوں کے طور اطوار ایسے ہوتے ہیں جیسے جج ارشد ملک کے تو اللہ کی پناہ۔ آدمی کی صحبت میں کتوں کا بھیڑیا پن جاتا رہا لیکن مسلمان ہونے، انصاف کی تعلیم حاصل کرنے اور انصاف کے مقدس ایوانوں میں بیٹھنے کے باوجود ان کے اندر کا بے انصافی کا بھیڑیا زندہ رہا۔ نوازشریف کا کیس جس طرح چلا، جس طرح ان پر الزامات لگے اور جس طرح انہیں سزا دی گئی ہے وہ ایک اور جوڈیشل مرڈر کے مترادف ہے۔ قوم ابھی تک بھٹو کے جوڈیشل مرڈر کو بھگت رہی ہے۔ جس طرح ججوں نے ٹی وی پروگراموں میں آکر اعتراف کیا کہ انہوں نے دبائو میں آکر بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ دیا نواز شریف کی سزا بھی کچھ ایسا ہی رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے۔ جس طرح بد چلن عورت کی حرکتوں سے پورا محلہ واقف ہوتا ہے سوائے اس کے بدنصیب شوہر کے، کچھ ایسا ہی معا ملہ عدالت عظمیٰ کا ہے۔ آج پورا ملک جج اسکینڈل سے گونج رہا ہے لیکن عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کا ابھی تک کوئی نوٹس نہیں لیا۔ وہ عدالت عظمیٰ جو دودھ کی قیمتیں بڑھائے جانے پر تو سو موٹو نوٹس لیتی رہی ہے اس معا ملے میں خا موش ہے۔ ایک ایسا جج جو عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں اس طرح کے فیصلے دے رہا ہے اس کے اسکینڈلز کے سامنے آنے پر عدالت عظمیٰ کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ ہمیں حیرت ہے عدالت عظمیٰ کے باہر لگے ترازو کے دونوں پلڑے اب تک برابر کیسے ہیں۔
مزید وڈیوز سامنے آنے کی بھی بات کی جارہی ہے جن میں مزید ججوں کے معاملات سامنے لائے جائیں گے۔ حکومت سول ہو یا فوجی اس قوال پارٹی کی مانند ہوتی ہے جس میں ایک شخص گاتا ہے باقی سب تالیاں بجاتے ہیں۔ سب تالیاں بجاتے رہیں لیکن اہل عدل کو حکومت کی سنگت میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے بستیاں اجڑ جاتی ہیں۔ برباد ہوجاتی ہیں۔ ایک توتے اور توتی کا گزر کسی جنگل سے ہوا۔ دیکھا سارا جنگل برباد اور خزاں رسیدہ۔ گھاس جلی ہوئی، پودے سوکھے ہوئے۔ توتے نے توتی سے کہا ’’ضرور اس جنگل میں اُلّو کا بسیرا ہے۔ اُلّو جہاں گھونسلا بنالے وہ جگہ اجاڑ ہوجاتی ہے‘‘۔ قریب ہی ایک اُلّو یہ باتیں سن رہا تھا۔ وہ ان کے پاس آیا اور بولا ’’زہے نصیب آپ میرے جنگل میں آئے۔ آج رات کھانا میرے ساتھ کھائیے‘‘۔ توتے اور توتی نے خوش دلی کے ساتھ اُلّو کی دعوت منظور کرلی۔ دعوت میں اُلّو نے دونوں کی خوب خاطر تواضع کی۔ دعوت کھا کر جب توتا اور توتی واپس جانے لگے تو اُلّو نے توتے سے کہا ’’توتی کو تم کہاں لے کر جارہے ہو یہ تو میری بیوی ہے‘‘۔ اُلّو کی یہ بات سن کر توتا چکرا گیا۔ بولا ’’بھائی خدا کا خوف کرو توتی تمہاری بیوی کیسے ہوسکتی ہے۔ تمہاری جنس الگ ہماری جنس الگ‘‘۔ اُلو نے کہا ’’زیادہ بک بک مت کرو۔ ایسا کرتے ہیں قاضی کی عدالت میں چلتے ہیں جو وہ فیصلہ کرے تمہیں قبول کرنا ہوگا‘‘۔ قاضی صاحب نے دونوں طرف کے گواہوں کے بیانات اور وکیلوں کی جرح سننے کے بعد فیصلہ دیا ’’توتی اُلّو کی بیوی ہے اور اُلّو کے ساتھ ہی رہے گی‘‘۔ فیصلہ سن کر توتا روتا ہوا اکیلا واپس جانے لگا۔ الو نے کہا ’’بھائی اپنی توتی کو تو ساتھ لیتے جائو۔ یاد رکھو بستیاں اُلّو کے بسیرا کرنے سے برباد نہیں ہوتیں۔ بستیاں تب برباد ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جائے‘‘۔