تحفظ حقوق خواجہ سرا بل کے مضمرات

333

امریکا جب بھی جانا ہوا، میرے پروگراموں کو نیوجرسی اسٹیٹ کے ممتاز عالمِ دین اور جماعتِ اہلسنت امریکا کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود احمد قادری ترتیب دیتے ہیں، وہ سال بھر میرے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ میں گزشتہ سال اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہ جاسکا، جس پر انہیں مایوسی ہوئی اور شکوہ بھی رہا۔ سو اس سال ان کے اصرار پر جانا پڑا۔میں امریکا میں مقیم پاکستانیوں سے یہ گزارش کرتا رہتا ہوں کہ آپ لوگ پاکستان میں مسلکی اور سیاسی وابستگی کے حوالے سے اپنی من پسند جماعتوں کا تعاون ضرور کریں، لیکن آپ پر یہ لازم نہیں ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کا ڈپلیکیٹ ایڈیشن امریکا میں ضرور موجود ہو اور اس بنا پر وہ اپنی تقسیم در تقسیم کا سلسلہ جاری رکھیں، بلکہ آپ لوگوں کو امریکن مسلم اور امریکن پاکستانی کی حیثیت سے اپنا وزن ثابت کرنا چاہیے، وہاں کی سیاسی جماعتوں اور کانگریس کے اراکین پر اپنی عددی قوت اور سیاسی رسوخ کے اعتبار سے اثر انداز ہونا چاہیے، جیسا کہ وہاں کے یہود اور ہندو کرتے ہیں۔ نیز آپ کو اس کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ وہاں کے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ کے حقوق کیا ہیں اور آپ اپنے مذہبی عقائد اور اقدار کا تحفظ کس حد تک کرسکتے ہیں۔
میں 20جون تا یکم جولائی امریکا کے دورے پر تھا، اس دوران میری ٹینیسی اسٹیٹ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی پروفیشنلز سے طویل نشست ہوئی، یہ نشست میرے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے، اس سے اہلِ علم کے ساتھ تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا ہے، ہم ایک دوسرے کے علم اور معلومات سے استفادہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں، خواہ وہ امریکی شہری بن چکے ہوں، کو پاکستان کے بارے میں ہمیشہ فکر لاحق رہتی ہے اور اُن کی پاکستان سے وابستگی ہم سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں جو پیش رفت ہورہی ہو، اُس کا وہ گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔ اُن میں ڈاکٹر خالد اعوان پیشے کے اعتبار سے عالمی شہرت یافتہ آئی سرجن ہیں، لیکن اُن کا تفسیر وحدیث اور اسلام کا مطالعہ بہت وسیع ہے، وہ قرآن وحدیث کی عہدِ حاضر پر تطبیق (Application) کا بھی ملکہ رکھتے ہیں۔ پس مِن جملہ زیرِ بحث امور میں سینیٹ آف پاکستان سے بعنوان: ’’Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018‘‘ منظور کردہ بل بھی زیرِ بحث آیا، کیوںکہ ہمارے ہاں تو یہ کام اپنے آپ کو ماڈرن اور لبرل ثابت کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں، جبکہ وہ لوگ ان کے تباہ کُن اثرات کا شعوری طور پر مشاہدہ کررہے ہیں، اُن کی اسلام سے محبت اور وابستگی بھی ہم سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیںہے، نیز اُن کا مغربی اقدار کا تقابلی مطالعہ محض نظری (Theoretical) نہیں ہے، بلکہ عملی اور مشاہداتی ہے اور فارسی کا مقولہ ہے: ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘۔
Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018 کے عنوان سے یہ بل 7مارچ 2018کو سینیٹ آف پاکستان سے پاس کیا گیا، اس کی محرک تین خواتین سینیٹرز روبینہ خالد، روبینہ عرفان، کلثوم پروین اور سینیٹر کریم احمد خواجہ ہیں۔ ہر قانون کی طرح بظاہر یہ بھی تحفظِ حقوق کے نام پر پیش کیا گیا ہے، لیکن اس کے پیچھےLesbians، Gays، Bysexual اور Transgender (LGBT) نامی مغربی تنظیم ہے جس کا عالمی ایجنڈا ہے۔
اس دوران ’’تنظیم اتحادِ امت‘‘ کے زیر انتظام بعض مفتیان کرام کا یہ فتویٰ جاری ہوا: ’’ایسے خواجہ سرائوں کے ساتھ، جن میں مردانہ علامات پائی جاتی ہیں، عام عورتیں اور ایسے خواجہ سرائوں کے ساتھ، جن میں نسوانی علامات پائی جاتی ہیں، عام مرد نکاح کرسکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ایسے خواجہ سرا جن میں مردوزن دونوں علامتیں پائی جاتی ہیں، انہیں شریعت میں خُنثیٰ مشکل کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ کسی مرد وزن کا نکاح جائز نہیں ہے‘‘۔ نیز یہ کہ ’’خواجہ سرائوں کا جائداد میں حصہ مقرر ہے‘‘۔ ہم حُسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ ان مفتیانِ کرام نے مذکورہ بل کا انگریزی متن نہ پوری معنویت کے ساتھ پڑھا اور سمجھا ہوگا اور نہ انہیں اس کے عالَمی محرکات اور مابعد اثرات کا اندازہ ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس شخص میں مردانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں، وہ مرد ہے اور جس میں زنانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں، وہ عورت ہے، اس پر خواجہ سرا کا اطلاق بے معنی ہے۔
امریکا میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات نے ہمیں بتایا کہ ہم جنس پرستوں کے گروپ LGBT نے بعض عالمی ذرائع ابلاغ میں اسے اپنی فتح سے تعبیر کیا اور کہا: ’’مسلم علماء نے Transgender کے حقوق تسلیم کرلیے ہیں‘‘۔ ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے لکھا: ’’پاکستان میں Transgender لوگوں کا اب تک آپس میں شادی کرنا ناممکن تھا، کیوںکہ وہاں قومِ لوط کا عمل کرنے والے لوگوں کی شادی پر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔ یعنی انہوں نے ہیجڑہ کا ترجمہ Transgender کر کے فتویٰ کو قومِ لوط کے ہر قسم کے عمل کے جواز پر محمول کردیا، کیوںکہ LGBT ان کی آرگنائزیشن کا نام ہے۔ اس میں Lesbian سے مراد ہم جنس پرست یعنی مَساحقہ عورتیں، Gays سے مراد ہم جنس پرست مرد، Bysexual سے مراد جو مرد اور عورت دونوں سے جنسی تعلق رکھے اور Transgender سے مراد خواجہ سرا ہیں۔ عوام کے نزدیک LGBT سے ہم جنس پرست مراد لیے جاتے ہیں، جبکہ خاص طور پر ہیجڑا یا خُنثیٰ مشکل کے لیے انگریزی میں خاص اصطلاح Hermaphrodite آتی ہے، ان کے جنسی اعضاء میں مردانہ خصوصیات غالب ہوں تو مرد اور نسوانی خصوصیات غالب ہوں تو عورت کہلاتے ہیں، جبکہ سینیٹ نے Transgender کے حقوق کے بارے میں بل پاس کیا ہے، اسے مغرب میں LGBT گروپ اپنے من پسند میں استعمال کرتا ہے، جس میں ہر قسم کی بے راہ روی شامل ہے۔ ایک Transgender وہ ہے جو دوجنسوں کے درمیان ہے، اس کے جنسی اعضاء مرد اور عورت کا مرکب ہیں، یعنی غیر متعیّن ہیں، اسے ہیجڑا کہتے ہیں۔ ایک ’’زنخا‘‘ ہے، اسے انگریزی میں Eunuch کہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو مردانہ جنسی اعضاء کے ساتھ پیدا ہوئے، مگر بلوغت سے پہلے جنسی اعضاء کو خصی کردیا یا کاٹ دیا گیا، قدیم زمانے میں پوپ اپنے مذہبی گیت گانے والوں سے یہ سلوک کرتے تھے تاکہ اُن کی نرم اور پرکشش آواز برقرار رہے۔
LGBT گروپ میں ایسے لوگ ہیں کہ ایک امریکی فوجی افسر نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ میں عورت ہوں اور پھر اس نے اپنی عادات واطوار تبدیل کرنا شروع کردیں اور ظاہر ہے کہ اس میں ڈاکٹروں اور پلاسٹک سرجنز کی مدد بھی حاصل کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی موجود ہے: ایک شخص نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ میں بلی ہوں، پھر اس نے پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنا چہرہ بلی جیسا بنوایا، اپنے ہاتھ پائوں میں بلی جیسے ناخن لگوائے اور دُم بھی لگوالی، سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر موجود ہیں، اسے ’’کیٹ مین‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس میں فن کاری یہ ہے کہ ہیجڑا (Hermaphrodite) پیدائشی طور پر جنسی اعتبار سے جدا صفات کا حامل ہوتا ہے، جبکہ Transgender کا مطلب ہے: ’’وہ افراد جو پیدائشی طور پر جنسی اعضایا علامات کے اعتبار سے مرد یا عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں، مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش میں اس جیسی عادات واطوار اور لباس اختیارکرلیتے ہیں اور اس کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور ڈاکٹر مرد کو عورت کے اور عورت کو مرد کے ہارمونز کچھ عرصے کے لیے استعمال کراتے ہیں۔ اس طرح مرد کے جسم کے بال جھڑنے لگتے ہیں، پٹھے نرم وملائم ہونے لگتے ہیں، سینے میں ابھار آتا ہے اور مرد کے آلۂ تناسل کو پلاسٹک سرجری سے نکال کر نسوانی ساخت بناتے ہیں۔ اسی طرح مردانہ ہارمونز کے ذریعے عورت کی جسمانی ساخت وخصوصیات میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور بعض صورتوں میں بعد از مرگ اپنے تمام اعضا ہبہ کرنے والے کسی مرد کا آلۂ تناسل بھی پلاسٹک سرجری کے ذریعے ٹرانسپلانٹ کردیتے ہیں۔ اس سے نہ تو مرد میں عورت کی پوری استعداد پیدا ہوتی ہے کہ حمل قرار پائے اور بچے پیدا ہونے لگیں اور نہ عورت میں مرد کی پوری استعداد پیدا ہوتی ہے کہ اس میں توالد وتناسل کی صلاحیت پیدا ہوجائے، مگر یہ شغل وہاں رواج پارہا ہے۔ اسی کو قرآن کریم نے تغییرِ خَلق سے تعبیر کیا ہے کہ جب ازراہِ تکبر وحسد ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا، اللہ تعالیٰ نے اسے راندۂ درگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’تو جنت سے نکل جا، بے شک تو راندۂ درگاہ ہے اور بے شک تجھ پر قیامت تک لعنت ہے، (الحجر: 34-35)‘‘۔ ’’شیطان نے قسم کھاتے ہوئے کہا: میں تیرے بندوں میں سے ایک معیّن حصہ ضرور لوں گا، ان کولازماً گمراہ کروں گا، ان کوضرور (جھوٹی) آرزوئوں کے جال میں پھنسائوں گا، انہیں ضرور حکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان کاٹیں گے اور انہیں لازماً حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بگاڑ دیں گے، (النساء: 118-119)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے لوگو!) اپنے آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی اس خلقت پر قائم رکھو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، (الروم: 30)‘‘۔ اسی بات کو حدیث پاک میں بیان کیا گیا ہے: ’’ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، (بخاری)‘‘۔
قدرتی طور پر کسی کا مُخَنَّث یا ہیجڑا پیدا ہونا اُس کا ذاتی عیب نہیں ہے، اس بنا پر نہ اُسے حقیر سمجھنا چاہیے اور نہ اُسے ملامت کرنا چاہیے، کیوںکہ ملامت کرنے کا جواز اس ناروا فعل پر ہوتا ہے، جس کا ارتکاب کوئی اپنے اختیار سے کرے اور جسے ترک کرنے پر اُسے پوری قدرت حاصل ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کسی متنفّس کو اُس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، اُس کے لیے اپنے کیے ہوئے ہر (نیک) عمل کی جزا ہے اور ہر (برے) عمل کی سزا ہے، (البقرہ: 286)‘‘۔ لیکن جیسا کہ سطورِ بالا میں بیان ہوا: ’’مغرب میں Transgender اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرتے ہیں، جس جنس پر اُن کی تخلیق ہوئی ہے، مصنوعی طریقوں سے اُسے بدل دیتے ہیں، ہم جنس پرستی کے ذریعے لذت حاصل کرتے ہیں، جبکہ اس کے بارے میں بڑی وعید آئی ہے۔
(جاری ہے)