افغان پراکسی جنگ میں بھارت کی شکست؟

351

مجھے یاد پڑتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا دندناتا ہوا افغانستان میں داخل ہوا تو امریکا کے اخباروں میں پاکستان کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا تھا۔ بڑے امریکی اخبارات میں ہر دوسرے روز زہریلی خواہشات اور مطالبات پر مبنی ایک مضمون شائع ہوتا جس میں دنیا کے ہر فساد کی جڑ پاکستان کوقرار دیا جاتا۔ پاکستان کی مشترکہ مخالفت میں امریکا اور بھارت کا معاشقہ گرم جوشی کی جانب مائل تھا اور یاہو مسینجر کے انڈین روم میں اکثر انڈیا کے صاحب الرائے افراد سے بحث چھڑ جاتی جو اکثر اوقات تلخی پر ہی منتج ہوجاتی۔ بھارت میں یہ عمومی سوچ پائی جا رہی تھی کہ امریکا نے پاکستان کو دہشت گرد سمجھ کر بھارت سے دوستی کا پکا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ دوستی پاکستان کا قیمہ بنا کر چھوڑے گی۔ ہم اکثر انہیں یہ نکتہ سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے کہ بھارت کو امریکا کا نیا ’’پاکستان‘‘ بن کر اپنا کندھا پیش کرنے کے بجائے علاقائی تناظر میں باہمی تنازعات کو حل کرنا چاہیے اور بھارت کو پاکستان سے سبق سیکھ کر امریکا کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہیے۔ بھارتی اس پر سیخ پا ہوجاتے اور جواب میں القاعدہ، طالبان اور لشکرطیبہ کا منترا پڑھ کر بات ختم کر دیتے۔ آج جب بیجنگ میں افغان عمل کے لیے ہونے والی امریکا، چین، روس اور پاکستان پر مشتمل چار فریقی کانفرنس منعقدہوئی تو بھارت کے صاحب الرائے افراد نے اسے افغان امن عمل سے بھارت کو الگ کرنے کی موثر کوشش قرار دیا۔ صاف نظر آرہا ہے افغان مسئلہ امریکا کے پیروں کی زنجیر ہے اور اس کے لیے اس زنجیر کو توڑنا اہم ہے ناکہ بھارت کی خوشنودی اور انا۔ امریکا نے یہ راز پالیا ہے کہ وہ افغان مسئلے میں جس بھارت کو حل سمجھتا رہا وہ مسئلہ تھا اور جس پاکستان کو سترہ سال مسئلہ سمجھتا رہا وہی حل ہے۔ بھارتیوں کو یہ احساس ہی نہیں رہا کہ جس دن امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہوگی وہ بھارت کی پروا کیے بغیر ربط وتعلق کے دھاگے کو وہیں سے گانٹھ لے گا جہاں سے بھارت کی محبت اور عشق میں اسے توڑ دیا گیا تھا۔
بیجنگ میں افغان مسئلے کے حل کے لیے چار ملکوں کی کانفرنس کو بھارت میں ایک ایسے انداز سے دیکھا گیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ بڑی طاقتوں نے بھارت کو افغان امن عمل سے الگ کر دیا ہے اور یوں بھارت نے افغانستان میں اپنی بالادستی اور پاکستان کو محدود سے محدو د تر رکھنے کے لیے جاری برسوں کی جنگ میں شکست قبول کر لی ہے۔ ’’انڈین پنچ لائن‘‘ ویب سائٹ میں ایم کے بہادرا کمار میں ’’انڈیا لوزز افغان پراکسی وار‘‘ کے عنوان سے ایک چونکا دینے والا مضمون لکھا ہے۔ بعد میں اسی نفس مضمون پر مشتمل ایک اور مضمون ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوا ہے۔ مسٹر کمار لکھتے ہیں کہ بیجنگ کانفرنس افغان امن عمل کے حوالے سے ایک ڈرامائی پیش رفت ہے۔ جس سے یہ صاف لگ رہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جار ی پراکسی جنگ میں بھارت کو شکست دے دی ہے۔ چاروں ملکوں کے نمائندوں نے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا ہے جس میں افغانستان میں قیام امن کی ضرورت پر اتفاق کرتے ہوئے اس عمل کی رفتار تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مسٹر کمار کی نظر میں اس کانفرنس کے اہمیت کی کئی وجوہات ہیں۔ اول: امریکا، روس اور چین یعنی بڑے کھلاڑیوں کی تکون میں پاکستان کو اس یقین کے ساتھ شامل کیا گیا ہے کہ پاکستان اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوم: چاروں ملکوں نے دوحہ اور ماسکو میں ہونے والے انٹرا افغان مذاکرات کو تسلیم کرتے ہوئے افغان حکومت، طالبان اور دیگر تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات شروع کرانے پر اتفاق کیا ہے۔ سوم: چاروں ملکوں نے افغانستان میں طاقت کا خلا پر کرنے کے لیے تمام فریقوں کے لیے قابل قبول سسٹم کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ چہارم: چاروں ملکوں نے افغانستان میں تشدد کا گراف کم کرنے اور مکمل سیز فائر کا ماحول بنانے اور اس کے نتیجے میں انٹرا افغان مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس لیے چاروں فریق رابطے اور کوششیں تیز کریں گے اور مذاکرات سے باہر فریقوں کو مذاکرات کے راستے پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
مسٹر کمار لکھتے ہیں کہ ایک اور سرد جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے چین امریکا اور روس نے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغان جنگ کے خاتمے پر اتفاق کر لیا ہے۔ سرد جنگ بھی ایسی کہ حالیہ جون میں پیسفک اسٹرٹیجی رپورٹ میں چین کو تبدیلی پسند طاقت اور روس کو بدنام اداکار کہا گیا تھا مگر اچانک گزشتہ ہفتے کے آخر میں تینوں سر جوڑ کر بیٹھے نظر آئے۔ مضمون نگار کے مطابق امریکا افغانستان سے مکمل انخلا کرتا ہے تو چین ہندوکش میں بالادست طاقت کے طور پر سامنے آئے گا اور اس تناظر میں چار ملکوں کی مثلث پاکستان کے اہم رول کو مزید واضح کر رہی ہے۔ چین اور امریکا کے لیے نہ سہی مگر پاکستان کو اس عمل کا لازمی شراکت دار بنانا چین کے اپنے مفاد میں ہے۔ ایسے میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے پاس پاکستان پر انحصار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تاکہ افغانستان دوبارہ بقول ٹرمپ دہشت گردوں کی لیبارٹری نہ بننے پائے۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے جانکنی کا شکار اسٹرٹیجک تعلقات اب دوبار آگے بڑھنے لگے ہیں۔ روس بھی چاہتا ہے کہ سی پیک جلد عملی شکل میں ڈھل جائے۔ ایسے میں کسی شک وشبے کے بغیر ایک شکست خوردہ ہے۔ پاکستان بھارت کو پراکسی جنگ میں شکست دے چکا ہے اور یہ شکست ایک حقیقت ہے۔
مضمون نگار کے مطابق اب بھارت میں یہ احساس اُبھر رہا ہے کہ امریکا نے انہیں دھوکا دیا ہے۔ بھارت کا افغانستان میں درپردہ جنگ چھیڑنا ایک سنگین غلطی تھی۔ بھارت نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ پاکستان اسی طرح افغانستان میں جائز مفادات رکھتا ہے جس طرح بھارت نیپال میں رکھتا ہے۔ اس کے لیے مضمون نگار نے دونوں ملکوں کے درمیان جغرافیے، ثقافت، معاش، نسل کے بے شمار اشتراکات کو دلیل کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بھارت کی دوسری غلطی یہ تھی کہ اس نے طالبان کو پاکستانی خفیہ اداروں کا سایہ سمجھ لیا حالانکہ یہ پوری کہانی نہیں تھی بلکہ کابل حکومت میں پھیلی کرپشن اور روز بروز ختم ہوتی ہوئی رٹ طالبان کی طاقت بڑھانے کا موجب تھی۔ مضمون نگار کے مطابق بھارت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ افغانستان تاریخ میں پہلی بار چین کے مدار میں آرہا ہے۔ ایسے میں بھارت کے لیے پراکسی جنگ جار ی رکھنا ایک نیا درد سر ہوگا۔ بھارت نے افغانستان میں طالبا ن کا راستہ روکنے کے لیے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس کو پالیسی ساز کا کام سونپا اور ڈپلومیٹک انداز سے ایران اور روس جیسے ہم خیال ملکوں کے ساتھ مل کر طالبان کا راستہ روکنے کی کوئی تدبیر نہیں کی۔ ایک بار امریکی انخلا ہوجاتا ہے تو بھارت کا سامنا اس فتح پر اترانے والے پاکستان سے ہوگا جو افغانستان میں بڑی حد تک اسٹرٹیجک ڈیپتھ حاصل کر چکا ہوگا۔ اس وقت بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے پاکستان سے مدد حاصل کر رہی ہیں جس کے باعث بھارت کھیل سے باہر ہورہا ہے۔ القاعدہ کی جہاد ہند کی حالیہ کال کو بھارت میں سنجیدہ لیا جانا چاہیے تھا مگر بھارت اتنی بار شیر آیا شیر آیا کا شور مچا چکا ہے کہ اب اس وقت تک کوئی اسے سنجیدہ نہیں لے گا جب تک کہ شیر دروازے پر کھڑا نہ ہوگا۔ یہ مضمون بہت سی حقیقتوں کا اظہار اور آنے والے دنوں کی حقیقی تصویر کشی ہے مگر پاکستان کے لیے بھارت کی ناکامی کی اپنی کامیابی پر اترانے اور فخر کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ افغانوں کے دل ودماغ کس طرح جیتے جا سکتے ہیں جو ’’ہم کہ ٹھیرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔