چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
اب ٹیکس ادائوں پہ بھی دینا ہی پڑے گا
بے وجہ کے انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا
بھر جائے گا اب قومی خزانہ یہ ہے امکاں
ہر عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب باغ کی رونق کو بڑھائے گا بھلا کون
ہر پھول پہ ہر خار پہ بھی ٹیکس لگے گا
جس زلف پہ لکھتے ہیں صبح وشام سخنور
اس زلف کے ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا
پہلے سابق حکمران کرپٹ تھے اب پتا چلا عوام بھی کرپٹ ہیں۔ ٹیکس ہی نہیں دیتے۔ یہ کہہ کون رہا ہے وہ جو بنی گالہ جیسی پرتعیش رہائش گاہ میں رہتا ہے لیکن 2017 میں جس نے محض ایک لاکھ 3ہزار روپے ٹیکس دیا تھا اور 2016 میں ایک لاکھ 59ہزار 609 روپے۔ اس پر دعویٰ یہ کہ پرائم منسٹر ہائوس کے اخراجات میں خود ادا کرتا ہوں۔ جو ایک لاکھ چند ہزار ٹیکس دیتا ہو وہ کیسے پرائم منسٹر ہائوس کے اخراجات خود ادا کرسکتا ہے۔ اگر عمران خان خرچے اٹھا رہے ہیں تو پھر پرائم منسٹر ہائوس کے بجٹ میں اضافہ کیوں کیا گیا ہے۔ عمران خان کے وزیر خزانہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی ٹیکس ادائیگی کی کیا صورتحال ہے۔ عمران خان کی بہنوں نے اربوں روپے کی جائداد پر چند کروڑ روپے جرمانہ دیا۔ ان کے وزیروں مشیروں کی بیرون ملک جائدادیں ہیں۔ ان پر نیب کیسز ہیں۔ پاکستان میں 9سے 10فی صد اراکین پارلیمنٹ ایسے ہیں جن پر سنجیدہ نوعیت کے مقدمات ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سب سے زیادہ اراکین کا تعلق اس جماعت سے ہے جو پاکستان کی واحد صادق اور امین جماعت ہے یعنی تحریک انصاف۔ پیپلز پارٹی کے 5مسلم لیگ ن کے9اور تحریک انصاف کے 18فی صد۔
حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ اسے وطن عزیز کا ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے جسے وہ ہتھوڑے کی مدد سے حل کرنا چا ہتی ہے۔ آغاز ہوتے ہی عمران خان کی حکومت کو ہر غریب، اس کا گھر اور کاروبار تجاوزات نظر آنے لگا۔ کرینیں، ٹریکٹر اور بلڈوزر لے کر وہ انہیں گرانے کی مہم پر نکل گئی۔ جو کسر باقی رہ گئی تھی بجٹ میں پوری کردی گئی۔ غضب خدا کا روٹی پندرہ روپے کی ہوگئی ہے۔ اس پر شبر زیدی کہتے ہیں روٹی پر ٹیکس نہیں لگایا۔ جب آٹے پر 17فی صد ٹیکس ہو۔ گیس کی قیمت میں 400فی صد اضافہ کردیا گیا ہو اور بجلی کی قیمت میں 127فی صد اضافہ کردیا گیا ہو تو حکومت کا کیا خیال تھا روٹی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ غریبوں کے کریا کرم سے فراغت ملی تو حکومت امیروں کے درپے ہو گئی۔ آئی ایم ایف کی صدر کرسٹینا لیگارٹ نے عمران خان کو باور کرایا تھا
چند ماہ میں جنگ ہارنے والے
تیرا دشمن تیری سپاہ میں ہے
وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کھلاڑی وزیراعظم کو بتایا ’’یہ دشمن وہ لوگ ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کرتے‘‘۔ تب عمران خان پر منکشف ہوا کہ ملک کی ترقی کا واحد راستہ ٹیکس کے حصول میں ہے۔ تب سے حکومت خونخوار درندوں کی طرح عوام کا گوشت نوچ رہی ہے۔ تاجر طبقہ پہلے ہی پریشان ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے اور لوگوں کی قوت خرید کے کم ہونے سے ان کے کاروبار تباہ ہیں اس پر مزید ظلم نت نئے ٹیکس قوانین۔ معاشی سرگرمیوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ 6جولائی 2019 کو وفاقی وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے کہا تھا ’’اس وقت ٹیکس کی شرح کل ملکی پیداوار کا 11فی صد ہے اگر اس میں اضافہ نہیں کیا گیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا‘‘۔ یقینا پاکستان میں ٹیکس کی شرح کل ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کی وجہ سے ہمیں بجٹ خسارے کا سامنا رہتا ہے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی قرضے لینے پڑتے ہیں۔ تاہم بجٹ خسارے کی یہ اکلوتی وجہ نہیں ہے۔ بجٹ خسارے کی واحد وجہ کم شرح ٹیکس نہیں ہے۔ امریکا جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ 2017 میں کل قومی پیداوار کے مقابلے میں وہاں ٹیکس کی شرح 27.1فی صد تھی لیکن اس کے باوجود امریکا کا وفاقی بجٹ 665ارب ڈالر خسارے کا بجٹ تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں فرانس میں ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ 2017 کے اعداد وشمار کے مطابق فرانس میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح 46.2فی صد تھی لیکن اس قدر ظالمانہ ٹیکس لینے کے باوجود 2017 کا فرانس کا بجٹ 67.7ارب یورو کے خسارے کا بجٹ تھا۔ فرانس کا کل قرضہ اس کے جی ڈی پی کا 90فی صد تک پہنچ گیا تھا۔
ان اعداد وشمار سے ایک بات ثابت ہے سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں ٹیکس کی شرح میں کتنا ہی اضافہ کرلیا جائے ریاست کے وسائل میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا کہ وہ خسارے کے بجٹ اور قرضوں سے جان چھڑاسکے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے جب کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس میں چھوٹ اور ایمنسٹی اسکیم دی جاتی ہے۔ نج کاری کے نام پر بجلی، تیل، گیس اور معدنیات کے بڑے بڑے وسائل ان کے قبضے میں دے دیے جاتے ہیں۔ جس سے ریاست کی آمدنی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے غریب عوام پر ظالمانہ ٹیکس لگا کر پورا کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ویلفیر ٹرسٹ کی آڑ میں چلنے والی افواج پاکستان کی کاروباری سلطنت کی مالیت کم از کم 7000ارب روپے ہے لیکن اس پر بھی کوئی ٹیکس لگنا تو دور کی بات ہے اس شجر ممنوع کے قریب جانے کی بھی کسی میں ہمت نہیں۔ ایک نیم سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کو حکومت سے حاصل ہونے والی ٹیکس مراعات اور سبسڈیوں کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ تقریبا 1000ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ان حلقوں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے حکمرانوں نے ملک کے معاشی بحران کا سارا بوجھ غریب عوام اور پسے ہوئے طبقے پر ڈال دیا ہے۔ اس ملک میں مراعات واپس لینے، ٹیکس دینے، ظلم کرنے اور باریک اور باریک پیسنے کے لیے کوئی ہے تو غریب عوام۔ عوام اس عمران خان کو پکار رہے ہیں جس نے ان سے خوشحالی کے وعدے کیے تھے لیکن اب وہ پکار رہے ہیں سلیکٹڈ کہاں ہو؟