اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں ایک فی صد اضافے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد پالیسی ریٹ یا شرح سود 13.25 فی صد ہوگئی ہے۔ جب کہ صرف ایک سال پہلے مئی 2018ء میں یہ شرح 6.25 فی صد تھی اور اب بڑھتے بڑھتے یہ شرح دوگنی ہوگئی ہے وجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ یہ اضافہ افراط زر یا مہنگائی کی شرح کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سال مئی میں مہنگائی کی شرح 5.8 فی صد تھی اب شرح سود دوگنی ہونے کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور مہنگائی کی موجودہ رفتار 9.5 فی صد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرح سود میں مسلسل اضافے کے باوجود مہنگائی کم نہیں ہورہی جب کہ اس اضافے کے منفی اثرات پوری معیشت پر آرہے ہیں۔
شرح سود یا پالیسی ریٹ میں اضافے کے پوری معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں وہ تمام کاروبار جن میں بینکوں کے قرضے سے فنانسنگ ہوتی ہے اُن سب کی کاروباری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح نئے پروجیکٹ یا کاروبار جن میں بینکوں کا قرضہ شامل ہوتا ہے اُن کی سرمایہ کاری رُک جاتی ہے، اس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت نے مختلف بینکوں سے جو قرضے لیے ہوئے ہیں اُن کی مالیت میں یکدم اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ تمام باتیں گورنر ہائوس کراچی میں ہونے والے وزیراعظم عمران خان اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے سامنے تاجروں نے رکھیں کہ ایک طرف بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، دوسرے 17 فی صد سیلز ٹیکس اور تیسرے 13.25 فی صد شرح سود کیا اس میں کوئی کاروبار چل سکتا ہے یا کوئی نیا کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے اسٹیٹ بینک کے گورنر کو اس کا جواب دینے کو کیا لیکن گورنر اس کا کوئی واضح جواب نہیں دے سکے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ فیکٹریوں اور کارخانوں کی بات تو دور ہے کسی ہیئر ڈریسر، ٹیلر، پراپرٹی ڈیلر، ریسٹورنٹ، کار ڈیلر، الیکٹرونکس شاپ، سینٹری اور ہارڈویئر شاپ کہیں چلے جائیں، کاروبار میں شدید مندی کا اثر نظر آئے گا اس کی وجہ ایک طرف تو غیر یقینی صورتِ حال اور دوسرے نئے نئے ٹیکس اس کا بالآخر نتیجہ یہ نکلے گا ایک دکان پر جہاں چار ملازم کام کرتے تھے وہاں ایک یا دو کو فارغ کردیا جائے گا اور بیروزگاری کا ایک طوفان پورے ملک میں پھیل جائے گا اور تنگ آمد بجنگ آمد کے بقول اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوسکتا ہے، اس وقت بھی موبائل اور پرس چھیننے اور موٹر سائیکل چوری کرنے کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ حکومت کو ان سب عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں، اس کی توجہ دو کاموں پر مرکوز ہے، ایک یہ کہ کسی نہ کسی طرح اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جائے۔ جیسے بھی ہو تما نمایاں لیڈروں اور پارٹی عہدیداروں کے خلاف کیس بنا کر سلاخوں کے پیچھے لے جایا جائے، حالاں کہ اس سیاسی کشمکش سے بھی معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے لیکن جیسا پہلے عرض کیا حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں۔
اور دوسری بات جس پر حکومت کی تمام توجہ ہے وہ ہے آئی ایم ایف کی شرائط پوری طرح عمل میں لائی جائیں تا کہ یہ پروگرام چلتا رہے اگر یہ پروگرام چلے گا تو دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان میں فنانسنگ کرتے رہیں گے لیکن اس معاملے میں بھی حکومت بُری طرح پھنسی ہوئی ہے کیوں کہ آئی ایم ایف نے اپنے پروگرام کو ایف اے ٹی ایف سے منسلک کردیا ہے اور ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اکتوبر تک کا ٹائم دیا ہے کہ اس وقت تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے معاملے میں ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان بلیک لسٹ ہوجائے گا اور اسی کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کا پروگرام وہیں رُک جائے گا۔ معاملہ صرف یہی نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان سے بہت ناراض ہے۔ پچھلے دنوں عالمی عدالت انصاف نے ریکوڈک کیس میں آسٹریلوی کمپنی کی اپیل کے فیصلے میں حکومت پاکستان پر 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عاید کیا ہے، اسی طرح ٹرکش کمپنی کے کیس میں پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ مزید یہ کہ پرائیویٹ پاور کمپنیوں کا گردشی قرضہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ آئندہ کئی سال تک سخت دبائو میں رہے گا۔ حکومت عوام کو تسلی دیتی رہتی ہے کہ معیشت میں استحکام آگیا ہے اور بہت جلد مشکل وقت ختم ہوجائے گا اور حالات بہتر ہوجائیں گے مگر اس بیروزگاری اور مہنگائی کے سیلاب میں عوام اب اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔