کیا عہدِ حاضر میں فقر کی زندگی بسر کرنا ناممکن ہے؟

422

یاسر پیرزادہ میاں نواز شریف کے عاشق عطا الحق قاسمی کے فرزند ارجمند روزنامہ جنگ کے کالم نویس ہیں۔ وہ آئے دن اپنے کالموں میں مذہب اور اہل مذہب پر طنز فرماتے رہتے ہیں اور ان کی ’’ناکافیتوں‘‘ پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں۔ چند روز پیشتر انہوں نے اپنے ایک کالم میں فرمایا ہے کہ مسلم صوفیا اور یونان کے رواقی فلسفی جس طرح کی سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے عہد حاضر میں ایسی زندگی بسر کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ یاسر پیرزادہ نے اس حوالے سے کیا فرمایا خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کرلیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’یونان کے بعض فلسفیوں نے خوشی کا علاج درویشی میں دریافت کیا تھا، یہ وہ فلسفی تھے جو دنیاوی مال و متاع سے دور رہتے تھے۔ ان کے تن پر ایک کپڑا ہوتا اور ہاتھ میں عصا، یہی ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہوتا، وہ جہاں جاتے یہی تعلیم دیتے کہ اپنی ضروریات کو جتنا کم رکھو گے اتنی ہی آسودہ زندگی گزارو گے۔ دیوجانس کلبی کچھ ایسا ہی کردار تھا، اس کا کہنا تھا کہ خوشی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو کوئی محتاجی نہ ہو، وہ اپنی ذات میں ہی اتنی صلاحیت پیدا کرلے کہ خوشی کے لیے اس کی ذات ہی کافی ہو، باالفاظ دیگر انسان کو دنیاوی چیزوں کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے، وہ بالکل سادہ زندگی گزارے، دنیاوی چکا چوند سے دور رہے۔ دیو جانس کلبی کی اپنی زندگی ایسی ہی تھی، اس کا کوئی گھر نہیں تھا کوئی اثاثے نہیں تھے۔ مسلمان صوفیا بھی سادہ زندگی پسند کرتے تھے، روپیہ پیسہ، دھن دولت سے دور بھاگتے تھے، کم کھاتے تھے، سادہ لباس پہنتے تھے، کسی عہدے کی انہیں طمع تھی اور نہ طاقت کے حصول کی خواہش۔ خوشی کا مسئلہ مگر پھر بھی حل نہیں ہوتا، آج کی اکیسویں صدی میں سادہ زندگی گزارنا اڑھائی ہزار پہلے کے یونان میں سادہ زندگی گزارنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل بلکہ قریباً ناممکن ہے، دیوجانس کلبی اگر آج کے دور کا کوئی حقیقی درویش دیکھ لے تو محض اس درویش کا بجلی کا استعمال دیکھ کر ہی اپنا سر پیٹ لے۔ گزرے وقتوں میں کم کھانے یا ایک ہی لباس استعمال کرنے کو حقیقت میں وصف سمجھا جاتا تھا کیوں کہ اس زمانے میں لوگوں کے پاس خوراک کی فراوانی تھی اور نہ ہی لباس اور دیگر ضروریات زندگی کا حصول کوئی آسان کام تھا۔‘‘
(روزنامہ جنگ۔ 7 جولائی 2019ء)
خدا کا شکر ہے کہ یاسر پیرزادہ نے لمبا ہاتھ مارنے کی جرأت نہیں کی ورنہ وہ صوفیا سے آگے بڑھ کر کہہ سکتا تھا کہ صحابہ نے جیسی زندگی بسر کی اب ویسی زندگی بسر کرنا ناممکن ہے۔ یاسر پیرزادہ اس سے آگے بڑھ کر یہ جرأت بھی کرسکتے تھے کہ رسول اکرمؐ نے جو زندگی بسر کی اب وہ زندگی بسر کرنا ممکن نہیں۔ ہم کئی سیکولر ہی نہیں مذہبی لوگوں کو بھی اس طرح کی گفتگو کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔
ہمارے زمانے تک آتے آتے خود پسندی بلکہ خود پرستی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اکثر لوگ خود کو مرکز انسانیت بلکہ مرکز کائنات سمجھتے ہیں۔ یہ ایک بڑا روحانی، اخلاقی اور علمی مرض ہے اور یہ مرض یاسر پیرزادہ کے کالم میں پوری طرح کلام کررہا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو یاسر پیرزادہ کہتے کہ یونان کے رواقی فلسفیوں اور مسلم صوفیا نے جیسی زندگی بسر کی کم از کم ’’میں‘‘ ایسی زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ اس بیان سے مسئلہ آسان ہوجاتا۔ یاسر پیرزادہ کے قارئین کو معلوم ہوجاتا کہ یاسر پیرزادہ مسلمان ہونے کے باوجود روحانی اور اخلاقی مرض میں مبتلا ہیں۔ مگر انہوں نے اپنے مسئلے کو ’’عمومی‘‘ بنادیا ہے یا ’’Generalize‘‘ کردیا ہے مگر یاسر پیرزادہ کا مذہب اور اہلِ مذہب پر اصل حملہ کچھ اور ہے۔
دراصل جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اب رسول اللہؐ، صحابہ یا صوفیا کی زندگی بسر کرنا ناممکن ہے تو وہ یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے کہ اللہ کا دین اور اس پر عمل ایک خاص زمانے کے لیے تھا، ہر زمانے کے لیے نہیں، حالاں کہ اسلام ہر زمانے کے لیے ہے۔ چوں کہ اسلام ہر زمانے کے لیے ہے اس لیے اس پر عمل بھی ہر زمانے کے لیے ہے۔ بلاشبہ مذہب پر عمل کا معیار گر گیا ہے مگر مذہب اور اس پر ایمان موجود ہے تو مذہب پر عمل کا معیار کل بلند بھی ہوسکتا ہے، لیکن یاسر پیرزادہ اور ان جیسے لوگ مذہب پر معیاری عمل کے امکانات کے تمام در اس طرح بند کرتے ہیں جیسے ان کی نگاہ صدیوں کو پھلانگنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور وہ سو فی صد یقین سے کہہ سکتے ہوں کہ اب فقر کی زندگی بسر کرنا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناممکن ہوگیا ہے۔ اقبال کی ایک نظم ہے جس پر مارچ 1907 لکھا ہوا ہے۔ اس نظم میں اقبال کہہ رہے ہیں۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آمادہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبس گئے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
اقبال کے یہ شعر بتارہے ہیں کہ اقبال کو اس بات پر کامل یقین ہے کہ اسلام تاریخ عہد حاضر میں خود کو ایک بار پھر ’’دریافت‘‘ کرے گا۔ ظاہر ہے کہ جب پوری تاریخ کی ’’بازیافت‘‘ ہوگی تو ’’فقر‘‘ کی بازیافت بھی ضرور ہوگی۔ مگر یہ مسئلہ ’’ایمان‘‘ ’’علم‘‘ اور ’’نظر‘‘ کا ہے۔ اقبال کا ایمان، علم اور نظر ’’سونا‘‘ ہے اور یاسر پیرزادہ کا ایمان، علم اور نظر ’’مٹی‘‘۔ بدقسمتی سے یاسر پیرزادہ نے اپنی تحریر میں کم ظرفی اور بے شرمی کا بھی کھل کر مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں فقر کی زندگی اختیار کرنا اس لیے ممکن اور آسان تھا کہ پرانا زمانہ غربت اور قلت وسائل کا زمانہ تھا۔ لوگوں کی اکثریت کے پاس کھانے پینے کو کچھ ہوتا ہی نہیں تھا۔ یاسر پیرزادہ کا خیال ہے کہ جتنے ذلیل النفس وہ خود ہیں اتنے ہی گھٹیا ماضی کے لوگ بھی ہوں گے۔ یہاں بھی یاسر پیرزادہ نے عزیمت کی پوری تاریخ پر حملہ کرکے اسے مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یاسر پیرزادہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو اہل مصر نے سیدنا عمرؓ کو دارالحکومت کی کنجی دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چناں چہ سیدنا عمرؓ نے مصر کا سفر اختیار کیا۔ وہ مصر کی سرحد کے قریب پہنچے تو مصر کے مسلمان گورنر نے ان کا استقبال کیا۔ گورنر نے دیکھا سیدنا عمرؓ کا لباس گرد آلود ہے۔ گورنر نے مودبانہ عرض کیا کہ اہل مصر نفاست پسند ہیں چناں چہ اگر آپ لباس بدل لیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا ہماری عزت اسلام سے ہے، لباس سے نہیں۔ یہ مسئلہ کچھ عرصے بعد ایک بار پھر سیدنا عمرؓ کے سامنے آیا۔ اس بار سیدنا عمرؓ سے مخاطب ہونے والی ہستی سیدہ عائشہؓ کی تھی۔ اس وقت تک مسلمان وقت کی دو سپر پاورز یعنی سلطنت روما اور سلطنت ایران کو منہدم کرچکے تھے اور سیدنا عمرؓ 22 لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط ریاست کے حاکم تھے۔ سیدہ عائشہؓ نے سیدنا عمرؓ سے فرمایا ایک طویل مدت تک ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے کھجوروں اور پانی کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا مگر اب آپ کے پاس ایک وسیع سلطنت ہے۔ دوسری ریاستوں کی اعلیٰ شخصیات آپ سے ملنے آتی ہیں۔ چناں چہ اگر آپ پیوند لگا لباس ترک کردیں تو بہتر ہو۔ سیدنا عمرؓ کو معلوم تھا ان سے کون مخاطب ہے چناں چہ سیدنا عمرؓ نے مخاطب کو وہاں سے جواب دیا جہاں سے اسے جواب دینا چاہیے تھا۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا۔ میں اپنے دو رفیقوں یعنی رسول اکرمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کے راستے اور طریقے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اس جواب کے بعد سیدہ عائشہؓ کے پاس خاموش رہ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ تو خیر سیدنا عمرؓ تھے ہماری تاریخ میں اورنگ زیب اور ناصر الدین جیسے بادشاہوں نے ’’سادہ زندگی‘‘ اختیار کی ہے۔
یاسر پیرزادہ کے کالم میں ایک مسئلہ یہ بھی موجود ہے کہ انہوں نے فقر اور امیری کو ایک دوسرے سے الگ کرلیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ فقر کی الف، ب بھی نہیں جانتے۔ آئیے ایک بار پھر اقبال سے رجوع کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
حیدری فقر ہے نہ دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
٭٭
نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی وہ نگاہ کی تیغ بازی
٭٭
تمہارے فقر سے میں اہلِ حلقہ باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دوستی و رنجوری
ان اشعار سے ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ مال نہیں مال کی محبت ہے۔ ورنہ سیدنا عثمانؓ اپنے زمانے کے ارب پتی تھے مگر ان کا لقب ’’غنی‘‘ ہے۔ یہی بات ہے۔ اسی لیے اقبال نے اپنی شاعری میں فقر کے ترانے گائے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پا کئی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ
علم فقہ و حکیم فقر مسیحؑ و کلیمؑ
علم ہے جو یائے راہ فقر ہے دانائے راہ
فقر مقام نظر علم مقام خبر
فقر میں مستی ثواب علم میں مستی حرام
اقبال نے فقر کے ترانے گائے تو اس لیے کہ انہیں اپنے زمانے میں بھی فقر پر عمل کی امید تھی اور ان کا خیال تھا کہ ہماری تہذیب ایک بار پھر کمال کی سطح پر فقر کی بازیافت کو ممکن بنائے گی۔ یعنی اقبال کے یہاں فقر کے ترانے ’’وقت کی راگنی‘‘ ہیں ’’بے وقت کی راگنی نہیں‘‘۔ مگر یہ بات یاسر پیرزادہ جیسے کم عقلوں کی سمجھ میں تھوڑی آسکتی ہے۔
اب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ کیا عہد جدید میں فقر کی زندگی بسر کرنا ممکن ہے؟۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ ہم ایسے کئی لوگوں سے آگاہ ہیں جنہوں نے پوری زندگی دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ حالاں کہ دُنیا ان کی رسائی میں تھی ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ فقر کی زندگی کا تجربہ اب تمام نہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ فقر تصور اور علم کی سطح پر بھی ہمارا مثالیہ یا ہمارا Ideal نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ابلاغ کے تما م ذرائع پر ایسے لوگ قابض ہیں جو ’’دنیا پرستی‘‘ کو ’’قدر‘‘ بنانے پر لگے ہوئے ہیں اور انہوں نے ’’روحانی زندگی‘‘ تصور کو ایک قدر کی حیثیت سے باقی نہیں رہنے دیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں فقر کے ’’نمونے‘‘ نایاب ہوگئے ہیں۔ چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ ہر چیز کے لیے گنجائش پیدا کرنی پڑتی ہے۔ یعنی Capacity building کی راہ ہموار کرنی پڑتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمیں دنیا سے ایسا عشق ہوگیا ہے کہ اس کے لیے ہم اپنے اندر انقلاب بھی برپا کرسکتے ہیں مگر دین کے لیے ہمیں چار قدم چلنا بھی دشوار محسوس ہوتا ہے۔ ہم ایسے درجنوں لوگوں کو جانتے ہیں جو ملٹی نیشنل اداروں میں کام کرتے ہیں اور ملٹی نیشنل ادارے ان سے روزانہ آٹھ سے دس اور کبھی کبھی دس سے بارہ گھنٹے روز کام لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی خانگی، خاندانی اور دوستانہ زندگی تباہ ہوجاتی ہے مگر ملٹی نیشنلز کی تنخواہ اور مراعات کے لیے وہ سب کو بخوبی برداشت کرتے ہیں، حالاں کہ 25 سال پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ لوگ اپنی پوری سماجی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی زندگی ملٹی نیشنلز کے نام کردیں گے اور اپنے اندر اپنی نوکری کے لیے اتنی گنجائش پیدا کریں گے کہ وہ خود اپنے لیے بھی میسر نہیں رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فقر کی زندگی ہم سے جن قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے ہم ان کے لیے آسانی سے تیار ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب عیاں ہے۔ ہم ’’مادی ترقی‘‘ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں مگر ہم ’’روحانی ترقی‘‘ نہیں کرنا چاہتے اور اگر چاہتے بھی ہیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اس سے ہماری دنیا متاثر نہ ہو۔ حالاں کہ رسول اکرمؐ فرما چکے ہیں دین کی محبت سے دنیا کا نقصان ضرور ہوگا اسی طرح دنیا پرستی سے دین کو ضرور ضرر پہنچے گا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ فقر سے آدمی کو کیا میسر آتا ہے؟ اس سوال کا کچھ جواب اقبال کے بعض شعروں سے پہلے ہی فراہم ہوچکا لیکن اس حوالے سے اقبال کے دو شعر اور ملاحظہ کرلیجیے۔ فرماتے ہیں۔
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شانِ بے نیازی
٭٭
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قرآنی
مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ عہد حاضر میں فقر کو بسر کرنا کیوں دشوار ہے۔ اس سلسلے میں بھی اقبال کا ایک شعر بے مثال ہے۔ فرماتے ہیں۔
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقاید کی بنا پر تعمیر
اس کے معنی یہ ہیں کہ یاسر پیرزادہ اور ان جیسے لوگوں کو اپنے خدا، رسول اکرمؐ اور آخرت کے ساتھ تعلق کا جائزہ لینا چاہیے۔ تعلق کی ان صورتوں میں نقص نہ ہوتا تو یاسر پیرزادہ کو کبھی نہ لگتا کہ عہد حاضر میں فقر کو بسر کرنا ناممکن ہے۔